حضرت لقمان  علیہ السلام 

تحریر: بنت احمد

قرآن مجید  نے حضرت لقمان علیہ السلام  کے پیغمبر ہونےپر بحث  کو  ضروری نہیں سمجھا لیکن بعض حضرات  انہیں پیغمبر   تسلیم کرتے  ہوئے حضرت  الیاس ؑ کا نام دیتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس  پر امت کے نزدیک  اتفاق رائے   موجود نہیں ۔

 اکثر کا قول ہے کہ وہ حبشی تھے  اور داؤد ؑ کے دور میں تھے  ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مقنول  ہے :   ” کہ لقمان  ؑ حبشی  تھے تجارت  ان کا پیشہ تھا “

 حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں  :

 ” حضرت  لقمان  پست قد ، موٹے ہونٹ والے  نوبیا قبیلے سے تھے  “

 سعد بن مسیب   فرماتے ہیں  : ” آپ  ؑ مصر   کے رہنے والے حبشی تھے “

تعارف : اکثر علماء کرام کی رائے  ہے کہ :

 حضرت لقمان  علیہ السلام  نبی نہیں تھے اور نہ ہی کسی  نبی کے پیروکار تھے  ۔ 1100 ق م میں وہ نوبیا میں  تشریف  لائے ۔ یہ حبشی  النسل تھے اور  کارپینٹڑ تھے  ۔ مگر اللہ تعالیٰ جس کو چاہے  ذہانت عطا فرمادے  ، وہ ایک پاکباز متقی انسان تھے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ  درجے کی عقل وفہم ، حکمت   ، دانائی  عطافرمائی۔

انہوں نے  عقل کی راہ سے وہ باتیں  کھولیں  جو پیغمبر وں کے احکام وہدایت  کے موافق تھیں ۔ رب العزت   نے ایک حصہ  قرآن میں نقل فرماکر ان کا مرتبہ  اور زیادہ  بڑھادیا  ہے۔ اور بتایا کہ دیکھو یہ حکیم لقمان  جو اپنی  سلامتی  طبع  وفکر  کے ذریعے  یہاں تک پہنچا وہ وہی اصول  ہیں جن کی طرف محمد ﷺ تمہیں دعوت دے  رہے ہیں ۔

قرآن کریم اور حکمت لقمان  ؑ :

قرآن میں اللہ تعالیٰ  حضرت لقمان  ؑ کو  حکمت ودانائی  عطا کرنے کا ذکر یوں فرماتے ہیں  :

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّـهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿١٢

حضرت لقمان  ؑ کی حکمت ودانائی  :َ

حضرت لقمان  ؑ کی بنیادی  شہرت ان  کی دانائی اور خاص اپنے صاحبزادے  کو وہ دانشمندانہ نصیحت  ہے جس کو اپناتے ہوئے  انسان  ایک خوشحال اور پاکیزہ  زندگی  کے راستے  پر چل سکتا ہے۔ لقمان ؑ کے بارے میں مشہور  ہے کہ آپ ؑ ستاروں ، جانوروں  اور اپنے اردگرد  پائی جانے والی دیگر  چیزوں کو دیکھتے ہوئے ان پر غور وفکر  فرمایا کرتے ۔

 حضرت قتادہ سے ایک عجیب  روایت  منقول ہے :

” ایک دن  جب آپ ؑ درخت  کے نیچے  سورہے تھے تو ایک فرشتہ  آیا اور کہا : اللہ رب العزت  آپ کو حکمت  ونبوت  میں سے  ایک  چیز  عطا   کرنا چاہتے ہیں ۔ا نتخاب  آپ کو کرنا  ہے، آپ ؑ نے حکمت  ودانائی  کو چن لیا ۔ راتوں رات ان  پر حکمت   برسائی گئی ۔ آپ ؑ  خود کو فطرت  سےز یادہ  قریب  پانے لگے ۔ صبح  کو ان  کی سب باتیں  اور عادتیں  حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ ؑ سے سوال  ہوا۔ آپ ؑ نے نبوت  کے مقابلے  میں حکمت  کیسے اختیار  کی ؟  تو جواب دیا : اگر  اللہ مجھے نبی بنادیتا۔ ممکن  ہے کہ میں منصب  نبوت  کو نبھاجاتا ۔ جب مجھے اختیار دیاگیا  تو مجھے  ڈر لگا کہیں ایسا نہ ہو میں نبوت  کا بوجھ  نہ اٹھاسکوں ۔ا س لیے  میں نے حکمت کو پسند کیا ۔ “

 ( اخذ :تفسیرا بن کثیر )

حضرت خالد  ربعی کا قول  ہے ” ” حضرت لقمان  ؑ جو حبشی  غلام بڑھئی  بھی تھے  “

 ان سے ایک  روز ان کے مالک  نے کہا: بکری  ذبح کرو اور اس کے جسم کا بہترین حصہ میرے پاس لاؤ۔ آپ  دل وزبان    لے کر آگئے  ۔ا ب کچھ  دنوں بعد  مالک نے پھر کہا : بکری  ذبح   کرو اور  اس کے جسم کا  بدترین حصہ  میرے پاس  لا ؤ ۔ آپ ؑ  پھر دل وزبان مالک کے پاس لے آئے  ۔ وہ حیران  ہوا اور پوچھا ایک ہی وقت میں یہ دونوں چیزیں  بدترین  اور بہترین  کیسے ہوسکتی ہیں ۔ آپ ؑ نے  فرمایا :  جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی حصہ نہیں  اور جب یہ برے بن جائے  تو پھر  سب سے بدتر  بھی یہی  ہیں ۔

 ( تفسیر ابن کثیر  )

 آپ ؑ کا غلام ہونا:

 بعض روایتوں میں آپ ؑ کا غلام ہونا بیان کیا گیاہے جو اس بات کا  ثبوت  ہے کہ  آپ ؑ نبی نہ تھے۔ کیونکہ غلامی نبوت  کے منافی ہے۔ انبیاء کرام  عالی نسب  اور عالی خاندان ہوا کرتے ہیں ۔

 حضرت لقمان  علیہ السلام  کسی بڑے گھرانے  وکنبے  سے نہ تھے  ، ان میں  بہت سی بھلی عادتیں  تھیں، وہ خوش اخلاق، خاموش، غور وفکر  کرنے والے ، دن کو نہ سوتے ، غسل کرتے، لغو باتوں سے دور  رہتے ، ہنستے  نہ تھے جوکلام  کرتے حکمت  سے خالی نہ ہوتا  ،ا پنی اولاد  کی وفات   پر بالکل  نہ روئے  ،و ہ بادشاہوں  ،امیروں  کے پاس اس لیے  جاتے کہ غور  وفکر، عبرت  ونصیحت  حاصل کرتیں ۔ا سی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔  اور دانائی  کا تقاضا  ہے کہ جو اصل  ہے اس کو پہچان  لیاجائے  لہذا للہ تعالیٰ  نے فرمایا : ” اس پر  تو میری شکر گزاری  کر، شکر گزار کچھ  مجھ پر احسان  نہیں کرتا وہ اپنا  ہی بھلا کرتا ہے ،

حضرت لقمان  ؑ کی اپنے  بیٹے کو نصیحت  ووصیت  :۔

 یہ لقمان  بن  عنقاء  بن سدون تھے ان  کے بیٹےکانام سہیلی کے بیان کی روسے   ” ثاران ”  ہے ، انہوں نے جو  بہترین نصیحت  اپنے بیٹے  کو کیں  دوسرے  لوگ بھی  ان سے  مستفید ہوئے  اور اچھائی کی راہ اختیار  کی ۔  

اولاد  سے پیاری  چیز انسان کی اور کوئی  نہیں ہوتی ۔ انسان  اپنی  بہترین اور انمول  چیز  اپنی اولاد  کو دینا چاہتا ہے۔ لہذآ  مشہور ہے کہ آپ ؑ نے اپنے انتقال سے قبل  وصیت  کے طور پر  اپنے بیٹے  کو بہترین نصیحت  کیں  وہ یہ ہیں :

پہلی نصیحت :

 (  

 (  شرک نہ کرنا  )

 سب سے پہلے یہ  نصیحت  کی کہ صرف  اللہ کی عبادت  کرنا اس کے ساتھ کسی کو  شریک  نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے  بڑے بے حیائی  اور زیادہ  براکام  کوئی نہیں ۔

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾ ( سورۃ لقمان  )

حضرت لقمان ؑ نے   شرک کو ” ظلم عظیم ” فرمایا ہے ۔ا یک روایت  ہےکہ جب سورہ الانعام  کی یہ آیت نازل ہوئی

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢

تو صحابہ کرام  کو بہت شاق  گزری ۔ا نہوں نے  رسول اللہ  ﷺ کی خدمت میں عرض  کیا” یارسول اللہ  ﷺ ایسا  تو کوئی  شخص نہ  ہوگا  جس نے اللہ تعالیٰ کےا حکام  کے خلاف  کچھ ظلم   نہ کیاہو”،

 تب آپ  ﷺ نے فرمایا :

 ” یہاں  ظلم سے مراد  عام گناہ نہیں   بلکہ وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان  علیہ السلام نے اپنے بیٹے  کو نصیحت کرتے ہوئے  فرمایا ۔ مطلب  یہ کہ ظلم سے مراد شرک ہے  “

 دوسری نصیحت :     

 يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴿١٦﴾ ( سورۃ لقمان )

 اے میرے بیٹے  اگر اچھائی یا برائی  رائی کے دانے کے برابر   بھی ہو یا  فرض کرو پتھرکی کسی  سخت  چٹان کے اندر بھی ہو یا فرض کرو  پتھر  کی کسی سخت چٹان   کے اندر ہو یا آسمانوں کی بلندیوں میں اللہ  تعالیٰ سے کوئی بات چھپی  نہیں ہوتی ، اس ذات پاک  کا اپنے بندوں  سے وعدہ  ہے کہ  وہ نیکی  وبدی کو ظاہر کردے گا ۔

 تیسری نصیحت :    

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ  ( سورۃ القمان 17)

اے میرے بیٹے  نماز پڑھو  اللہ کے لیے  اور نیکی کا حکم کرو  یعنی خود  اللہ کی توحید  پر قائم  ہوکر دوسروں کو بھی نصیحت  کرو کہ اچھی  بات سیکھیں اور برائی  سے بچے رہیں ۔

چوتھی نصیحت  :۔

 وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ 

 اے میرے بیٹے   دنیا میں جو سختیاں  پیش آئیں انہیں  تحمل سے برداشت کرو ، سختیوں سے  گھبرا کر  ہمت  ہار دینا حوصلہ مندبہادروں کا کام نہیں ،

 پانچویں  نصیحت :

 وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ

 اے میرے بیٹے  ! غرور  سے مت دیکھنا لوگوں کو اور حقیر  نہ سمجھنا ۔ متکبروں  کی طرح بات  نہ کرنا بلکہ خندہ  پیشانی سے ملنا ۔

چھٹی نصیحت :

 إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ( 18 ) سورہ لقمان 

   اے میرے  بیٹے ! اترانے  اور شیخیاں مارنے والے کی کچھ عزت نہیں ہوتی  بلکہ وہ ذلیل وحقیر  ہوتا ہے ۔ سامنے  نہیں تو پیچھے  لوگ اسے برا کہتے ہیں ۔

 ساتویں نصیحت :

 وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ﴿١٩

اے  میرے بیٹے  ! تواضع  ومتانت  اور میانہ روی  اختیار کرنا ، بلا ضرورت   مت بولنا، کلام کرتے وقت  چلا کر بات نہ کرنا ،ا گر اونچی  آواز سے بولنا کمال ہوتا تو گدھے کی آواز پر  خیال کرو،زور سے بولنے  سے آدمی  کی آواز بے سری  ہوجاتی ہے ۔

 حضرت  لقمان  ؑ نے اپنے  بیٹے کو جو نصیحتیں کیں ہیں ان میں حسن خلقی  اور تواضع  کی ترغیب  ، شرک  ، شیخی  اور بدا خلاقی  کی مذمت کی گئی  ہے، حضرت لقمان  ؑ نےا ن  باتوں  کو خصوصیت کے ساتھ اس  لیے  انتخاب فرمایا، کہ  کائنات  میں جس قدر   بھلائی  وبرائی  پیش آتی ہے  ۔ ان سب کی بنیادی  جڑیہی امور ہیں ۔

چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :ؒ

 “بلاشبہ  میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کو  درجہ  کمال  تک پہنچاؤں “َ

حضرت حکیم لقمان ؑ  کے حکیمانہ قول :َ

 عرب میں حکمت لقمان  کا کافی چرچ تھا ۔ا کثر  مجالس میں ان کے حکیمانہ  اقوال کو نقل کیاجاتا۔ چنانچہ   تابعین  ، صحابہ   رضوان اللہ اجمعین  بلکہ نبی کریم ﷺ سے بھی اس سلسلے میں  بعض  اقوال منقول ہیں ۔

1۔ حکمت  ودانائی  مفلس کو بادشاہ بنادیتی ہے ۔

2۔  اللہ تعالیٰ  جب کسی کو امانت دار بنائے تو امین کا فرض ہے  کہ اس امانت کی حفاظت  کرے ۔

3۔  اے بیٹے خدا تعالیٰ سے ڈر  اور ریاکاری سے خدا کے  ڈرکا مظاہرہ نہ کر لوگ اس وجہ سے تیری عزت  کریں  اور تیرا دل حقیقتاً گنہگار ہو۔

4۔ اے بیٹے خاموشی  میں  کبھی ندامت اٹھانی نہیں پڑتی  اگر کلام چاندی ہے سکوت سونا ہے۔

5۔ جو بوؤگے وہی  کاٹوگے ۔

6۔  نرم گوئی دانائی کی  جڑ ہے ۔

کسی نے لقمان  ؑ سے دریافت کیا سب سے زیادہ  صابر کون  شخص ہے ۔ انہوں نے کہا : جس کے صبر  کے پیچھے ایذاء نہ ہو۔

دسترخوان  پر ہمیشہ  نیک لوگوں کا اجتماع  رہے تو بہتر  ہے  اور مشورہ   صرف علماء حق ہی سے  لینا چاہیے ۔

حضرت لقمان  ؑ سے پوچھا گیا ۔ آپ ﷺ کی دانائی  کا راز کیاہے ؟  تو فرمایا : ” سچ   بولنا، وعدے  کو پورا کرنا ا ور ان چیزوں سے گریز کرنا جن کا براہ راست  مجھ سے کوئی  تعلق  نہیں بنتا ۔”

 آپ ﷺ کی حدیث کے مطابق : ” جس کو دانائی  عطا  کی گئی اسے بہت  بڑی خیر  سے نوازا گیا ” اور یہ دانائی  کی تاریخی  کتب  وقرآن  مجید  کی روشنی میں حضرت لقمان  ؑ کی وراثت  ہے ۔

مولانا حاؔلی نے فرمایا

 ؔ  حکمت  کو ایک کمشدہ لال سمجھو

جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو

حضرت لقمان  ؑ کی حکیمانہ صلاحیتوں اور طب  کی ادویات  سے لوگ آج تک  فائدہ حاصل کررہے ہیں اور رہتی دنیا تک کرتے رہیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں