ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنے کا حکم

سردیوں میں مساجد میں سامنے کی دیوار پر ہیٹر لگے ہوتے ہیں ان کے سامنے نماز پڑھنا کیسا ہے؟جبکہ یہ مجوسیوں سے مشبہت ہوتی ہے 

(جیسا کہ نمازی کے سامنے والا شخص نمازی کی طرف منہ کر کے بیٹھ جائے تو یہ مکروہ ہے)

فتویٰ نمبر:271

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامدا و مصلیا

گیس کےہیٹرکے سامنے نماز پڑہنے میں مجوسیوں کے ساتھ مشابہت نہیں ،اس لئے کہ مجوسی عبادت کے و قت آگ کو تنور یا آتشدان (کانون ) وغیرہ میں سامنے رکھتے ہیں اور ہیٹر ان دونو ں کے ما سوا تیسری چیزہے ،صاحب ِ بحر اور صاحب ِ تبیین رحمہمااللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ آگ کے سامنے نماز پڑھناصرف اس صورت میں مکروہ ہے کہ جب آگ اس انداز سے نمازی کے سامنے رکھی ہو جس انداز سے مجوسی لوگ اس کی عبادت کرتے ہوئے اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اگر آگ نماز ی کے سامنے مجوسیوں کے عبادت کے انداز سے رکھی ہوئی نہ ہو تو نماز مکروہ نہیں ہوگی ، لہٰذا اگر آگ نمازی کے سامنے تنور یا آتشدان میں اس طرح رکھی ہوجیسے مجوسی رکھتے ہیں تو نماز مکروہ ہوگی ورنہ نہیں ، تاہم اگر اس میں کراہت ہونے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی سردی کے موسم میں ضرورت کی بنا پر اس کی گنجائش ہوگی ،جیسا کہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نمازمیں چہرہ چھپانے کو مجوسیوں سے مشابہت کی وجہ سے مکروہ بتایا ہے اور بوقتِ ضرورت اس کی گنجائش بیان کی ہے ،لہٰذا مساجد یا گھروں میں سرد ی کی وجہ سے ہیٹر سامنے لگا کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ، تاہم بہتر یہ ہے کہ ہیٹر کو سامنے رکھنے کے بجائے دائیں بائیں رکھ لیا جائے ،یا سامنے کی دیوار میں ذرا اونچی جگہ پر نصب کر لیا جائے تاکہ اس میں کسی قسم کی کراہت کا شائبہ نہ رہے ۔

============

فی البحرالرائق:(۲؍۵۹)

( قولہ : أو شمع أو سراج ) لأنہما لا یعبدان والکراہۃ باعتبارہا وإنما یعبدہا المجوس إذا کانت فی الکانون وفیہا الجمر أو فی التنور فلا یکرہ التوجہ إلیہا علی غیر ہذا الوجہ وذکر فی غایۃ البیان اختلاف المشایخ فی التوجہ إلی الشمع أو السراج والمختار أنہ لا یکرہ

وینبغی أن یکون عدم الکراہۃ متفقا علیہ فیما إذا کان الشمع علی جانبیہ کما ہو المعتاد فی مصر المحروسۃ فی لیالی رمضان للتراویح ۔

============

فی تبیین الحقائق:(۱؍۴۱۷)

قال رحمہ اللہ أو شمع أو سراج لأنہما لا یعبدان والکراہۃ باعتبارہا وإنما تعبدہا المجوس إذا کانت فی الکانون وفیہا الجمر أو فی التنور فلا یکرہ التوجہ إلیہا علی غیر ذلک الوجہ ۔

============

فی بدائع الصنائع:(۱؍۲۱۶)

ویکرہ أن یغطی فاہ فی الصلاۃ لأن النبی نہی عن ذلک ولأن فی التغطیۃ منعا من القرائۃ والأذکار المشروعۃ ولأنہ لو غطی بیدہ فقد ترک سنۃ الید وقد قال کفوا أیدیکم فی الصلاۃ ولو غطاہ بثوب فقد تشبہ بالمجوس لأنہم یتلثمون فی عبادتہم النار والنبی نہی عن التلثم فی الصلاۃ إلا إذا کانت التغطیۃ لدفع التثاؤب فلا بأس بہ۔

============

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں