حضور ﷺ کا رمضان

قرآن کریم میں رمضان المبارک کو ”ماہِ قرآن” کہا گیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم اس مہینہ میں نازل ہوا۔ حضور ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس ماہ کو ”عظیم”، ”مبارک” اور ماہ برکت کا لقب عطا کیا ہے اور اسے ”صبر”، ”غم خواری” اور ”مومن کے رزق” کا مہینہ قرار دیا ہے۔ آپ کے مبارک فرامین کے مطابق ”ماہ رمضان” کو سال کے بقیہ گیارہ مہینوں پر کئی فضیلتیں حاصل ہیں: 

٭    یہ فرض روزوں کا مہینہ ہے۔
٭     اس کے ہر دن اﷲ جل شانہ جنت کو سجنے کا حکم دیتے ہیں۔
٭    جنت کے دروازے کھول دیے  جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے  جاتے ہیں۔
٭    یکم رمضان سے آسمانوں کے بھی دروازے کھول دےے جاتے ہیں جو رمضان کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں۔
٭     سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔
٭    نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر کردیا جاتا ہے۔
٭     ہر دن کوئی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
٭    ہر روز بے شمار گناہ گار نار جہنم سے بخشش اور آزادی کا انعام پاتے ہیں۔ (الترغیب و الترہیب)
ایسے قدر آور مہینے میں حضور سید الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم کے معمولات کیا تھے؟ آیندہ سطور میں اس پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے:
رمضان کی تیاری :
حضورِ اکرمﷺ رمضان سے دو ماہ قبل یعنی رجب سے ہی ماہ مبارک کی آمد کی دُعائیں شروع فرمادیتے تھے۔ ”مجمع الزوائد” کی روایت کے مطابق حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یوں دعا فرماتے: اللّٰھم بارک لنا فی رجب و شعبان  و بلغنا رمضان۔” (اے اﷲ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لےے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے!) ایک روایت میں و بلغنا رمضان کی بجائے وبارک لنا فی رمضان کے الفاظ ہیں ۔ (مسند احمد)
اس روایت سے رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ روایات کے مطابق نبی کریم ﷺ شعبان کی تاریخوں کو جس اہتمام سے یاد رکھنے کا حکم فرماتے اس قدر اہتمام دوسرے مہینوں کے بارے میں نہ فرماتے تھے۔

 صحابہ کرام سے خصوصی خطاب:
شعبان کی آخری تاریخ کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام کو اہتمام سے جمع کرکے ان کے سامنے رمضان کی اہمیت و فضیلت ،رمضان کے خصوصی اعمال اور ان کے فضائل خطاب کی صورت میں بیان کرتے تھے۔ یہ حدیث صحےح ابن خزیمہ اور بیہقی وغیرہ میں اس طرح موجود ہے:
”تمہارے سامنے ایک بڑا مبارک مہینہ آرہا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے۔ اس ماہ میں اﷲ پاک نے روزہ کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی تراویح کو سنت ۔جس نے اس ماہ میں کوئی نفل عبادت کی گویا اس نے اس ماہ کے علاوہ میں فرض ادا کےا (یعنی نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوجاتا ہے)اور جس نے اس ماہ مےں فرض ادا کےا گوےا اس نے ستر فرض ادا کےے۔( اےک اےک فرض ادا کرنے پر٧٠ فرض کے ادا کرنے کا ثواب ملے گا)۔ یہ ماہ صبر (مشقت عبادت)کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ےہ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا مہینہ ہے، ایسا مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
جس نے اس ماہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا اس کے لےے گناہوں کی معافی کا باعث ہوگا اور جہنم سے خلاصی کا اور اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اسے اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس پر حضرات صحابہ نے عرض کیا۔ اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے ہر ایک تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ افطاری کرائے۔ (چونکہ وہ زمانہ زیادہ غربت کا تھا) آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی ثواب ملے گا جس نے ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے یا ایک گھونٹ دودھ سے افطار کرایا۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول مہینہ (پہلا عشرہ) رحمت کا ہے، دوسرا حصہ مغفرت کا ہے اور تیسرا حصہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔ جو غلام (اور نوکر) کے ساتھ تخفیف (کام کے بوجھ کو ہلکا کرنے) کا معاملہ کرے گا اﷲ اسے معاف کرے گا اور جہنم سے خلاصی مرحمت فرمائے گا۔ اس میں چار چیزوں کو کثرت سے کیا کرو۔ جس میں دو تو وہ ہیں جس سے تمہیں تمہارے رب کی رضا مندی حاصل ہوگی اور دو ایسی چےزےں ہےں کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ وہ دو امور جس کے بغیر چارہ نہیں وہ جنت کا سوال (اور اس کی دعا) ہے اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔ جس نے کسی روزہ دار کو سیراب کیا (پانی وغیرہ پلایا) اسے اﷲ پاک میرے حوض سے سیراب کرے گا، جس کے بعد اسے پیاس محسوس نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ”
چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام :
حضور سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم ماہ مبارک کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور جب تک خود چاند نہ دیکھ لیتے یا کوئی عینی گواہ چاند دیکھنے کی صحیح صحیح  گواہی نہ دیتا اس وقت تک رمضان المبارک کا اعلان نہ فرماتے۔ اگر چاند نظر نہ آتا یا مطلع ابر آلود ہوتا تو رمضان کا اعلان نہ فرماتے اور شعبان کے تیس دن پورے فرماتے۔(زاد المعاد)
رویت ہلال سے متعلق روایات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے :
(١)     ”چاند کا فیصلہ” سائنسی آنکھ کی بجائے انسانی آنکھ سے کیا جائے گا۔
(٢)     اگر مطلع ابر آلود ہو تو صرف ایک دیندار آدمی چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، کی شہادت (جبکہ وہ صحیح  شہادت دے) سے بھی چاند نظر آجانے کا اعلان کردیا جائے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی گواہی پراور ایک موقع پر صرف ایک اعرابی کی گواہی پر چاند نظر آنے کا اعلان فرمایا ہے۔ (زاد المعاد)
بے نمازی اور فاسق آدمی چاند کی گواہی دے تو ان کی گواہی کا اعتبار نہیں۔ اسی طرح مطلع صاف ہونے کی صورت میں چاند نظر آنے کا فیصلہ اس وقت کیا جائے گا جبکہ اتنی کثرت سے لوگ اپنا چاند دیکھنا بیان کردیں کہ قاضی کا دل گواہی دینے لگے کہ یہ سب جھوٹ پر اتفاق نہیں کر سکتے۔
(بحرالرائق)
رمضان کا چاند دیکھنے کی دُعا:
ماہِ رمضان کا چاند نظر آجاتا تو حضور نبی اکرمﷺ اس کی طرف رخ انور فرما کر یہ دُعا پڑھتے:
”اللھم اھلہ علینا بالا من والایمان والسلامۃ و الاسلام والعافیۃ العجلۃ و دفاع الاسقام، والعون علی الصلاۃ والصیام وتلاوۃ القرآن، اللھم سلمنا لرمضان و یسلمہ لنا وسلمہ منا حتی یخرج رمضان وقد غفرت لنا ورحمنا و عفوت عنا۔” (کنزالعمال جلد ٨ صفحہ ٥٩٠)
ایک حدیث میں ہے کہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہوجاتا تو نبی کریمﷺ ،صحابہ کرام کو یہ دُعا سکھلاتے : ” اللّٰھم سلمنی لرمضان و سلم رمضان لی وسلمہ لی متقبلا۔”
ترجمہ: اے اﷲ ہمیں سلامتی عطا فرما رمضان میں اور سلامتی عطا فرما رمضان کو مجھ سے ، اور اسے میرے لئے سلامتی کے ساتھ قبول فرما۔”
روزہ  رمضان:
رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے تھے۔ جو شخص رمضان المبارک کا روزہ بلا عذر شرعی چھوڑ دے احادیث میں ایسے شخص کے لیے  جہنم کے سخت عذابوں کا ذکر آیا ہے۔

نبی اکرم ﷺ سے ماہ مبارک کے حوالے منقول فضیلت کا خلاصہ یہ ہے: ”رمضان المبارک کے روزے اﷲ جل شانہ نے فرض قرار دیے  ہیں۔ جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اور روزے کے دوران گناہوں سے بھی بچے اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے  جاتے ہیں۔ روزہ بدن کی زکوۃ ہے۔ روزہ دار کے لیے  فرشتے اور سمندر کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ روزانہ نماز فجر سے غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ ہر سجدہ کے بدلے میں جنت میں ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے جس کے سایے میں سوار 500 سال تک چل سکتا ہے۔ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور جبرئیل امین نے اس شخص کے خلاف ہلاکت کی بددعا فرمائی ہے جو رمضان کے مہینے میں بھی اپنی مغفرت نہ کرواسکے۔ جو شخص رمضان کا ایک روزہ بلا عذر چھوڑ دے تو زندگی بھر کے روزے اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔ ”
(الترغیب و الترھیب)
ایک حدیث میں ارشاد نبویﷺ ہے:
” میں نے کچھ لوگ الٹے لٹکے ہوئے دیکھے ، جن کے منہ کو چیرا گیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا:
” یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ”یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ نہیں رکھا کرتے تھے۔”
(صحیح  ابن حبان : ٧٤٩٤)
سحری کے معمولات:
    حضور صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ کے لےے خود بھی سحری فرماتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی سحری کھانے کی ترغیب دیتے تھے۔ حضورﷺسحری تاخیر سے فرماتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی تاخیر سے سحری کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ (بخاری و مسلم) ”سحری مبارک اور نماز فجر میں صرف پچاس آیتوں کے قریب فاصلہ ہوتا تھا۔” (شمائل کبریٰ)
    ایک حدیث کے مطابق رمضان المبارک میں آپﷺ رات کا کھانا نہ کھاتے، صرف سحری پر اکتفا فرماتے۔ ”     (شمائل کبریٰ)
    ایک روایت میں ہے ” مومن کے لےے بہترین سحری کھجور ہے”۔ (الترغیب)
    اور فرماتے تھے کہ : ”سحری کا کھانا مبارک غذا ہے۔”         (صحےح ابن حبان )
    ”سحری کے کھانے کا حساب نہیں لیا جائے گا۔”               (طبرانی، بزار)
    ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری ہے۔ ”      (مسلم)
    ”سحری کیا کرو! کیونکہ سحری میں برکت ہے۔”         (بخاری)
”اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔” (طبرانی، ابن حبان)
افطاری کے معمولات:
حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول غروب آفتاب کا یقین ہوجانے کے فوراً بعد افطاری کرنے کا تھا۔ آپ ﷺ خود بھی جلد افطاری فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی غروب آفتاب کے فوراً بعد افطاری کرنے کی تلقین فرماتے تھے اور فرماتے تھے: ” مسلمان اس وقت تک بھلائی میںرہیں گے جب تک وہ روزہ افطاری میں جلدی کریں گے۔”         (بخاری)
”افطاری میں تاخیر یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔”         (شمائل کبریٰ )
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے افطاری کے یہ آداب منقول ہیں:
(الف)     افطاری کے وقت سے پہلے افطاری کا انتظام کیا جائے۔
(ب)     افطاری کا سامان سامنے رکھ کر غروب آفتاب کا انتظار کیا جائے۔
(ج)    افطاری سے پہلے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی جائے کیونکہ یہ دعا قبول ہوتی ہے۔
(د)     غروب آفتاب کا یقین ہوتے ہی افطاری کر لی جائے۔ تاخیر نہ کی جائے۔
(ہ)     کھجوروں سے روزہ افطار کیا جائے اگر کھجور نہ ہو تو چھواروں سے ورنہ پانی سے افطاری کی جائے۔ بعض روایات کے مطابق حضور اکرمﷺنے دودھ سے بھی روزہ افطار کیا ہے۔
(و)     مغرب کی نماز سے پہلے افطاری کی جائے۔
(ز)    آگ پر پکی ہوئی چیز سے افطاری نہ کی جائے ۔
(ح)     افطاری شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھی جائے : اللَّھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ (ابوداؤد) (وبک آمنت و علیک توکلت کے الفاظ ثابت نہیں) اور افطاری کے بعد یہ دُعا پڑھی جائے: ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَاءَ اﷲُ تَعَالٰی۔     (ابوداؤد)
    کسی دوسرے کے یہاں افطاری کی دعوت ہوتو افطاری کے بعد یہ دُعا مسنون ہے :
” افطر عندکم الصائمون واکل طعامکم الابرار و صلت علیکم الملائکۃ۔”
(ابن سنی :٤٣٣)
دوران روزہ کے معمولات:
حضورِاکرم ﷺ روزہ کے دوران مسواک بھی فرماتے تھے۔ سر پر پانی بھی ڈال لیا کرتے تھے۔ کلی بھی کرتے تھے اور سرمہ بھی لگاتے تھے۔ ناک میں پانی بھی پہنچاتے تھے۔ لیکن اس میں

زیادہ مبالغہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ رمضان المبارک میں کئی غزوات ہوئے ہیں ان غزوات میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ نہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ جنگ، سفر، مرض میں اضافے کے خطرے اور سخت کمزوری یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کی احادیث سے رخصت معلوم ہوتی ہے۔
روزہ توڑنے ، نہ توڑنے والی اشیاء:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بھول کر کھا پی لینے، بھول کر جماع کرنے، پچھنے لگوانے اور خود بخود اُلٹی ہوجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب روزہ دار اپنے اختیار سے منہ یا کسی اور قدرتی راستے سے کوئی چیز اس طرح استعمال کرے کہ وہ پیٹ یا حلق یا دماغ میںداخل ہوجائے۔ بدن سے خارج ہونے والی کسی چیز سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔      (بخاری، زیلعی)
تراویح کے معمولات:
رمضان المبارک کی راتوں میں قیام(یعنی تراویح پڑھنا) سنت موکدہ ہے۔ بخاری کی روایت کے مطابق حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے چار دن مسلسل تراویح کی نماز پڑھی ہے۔ لیکن پھر اس خوف سے پڑھنا چھوڑ دی کہ کہیں امت محمدیہ پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے فرض قرارنہ دیدیا جائے۔ اس روایت میں تراویح کی تعداد کا ذکر نہیں۔ طبرانی، مجمع الزوائد،ا بن ابی شیبہ اور بیہقی کی ایک کمزور روایت میں آپﷺ سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کاذکرآیاہے۔لیکن چونکہ حضرت عمرکے دورسے آج تک امت کابیس رکعات تراویح پر عمل چلا آرہا ہے نیز حضور ﷺ نے خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل لازم قرار دیا ہے (ابوداؤد، ابن ماجہ) اور جس طرف اہل علم کی اکثریت ہو اس کی اتباع کی تلقین کی ہے اس لےے جمہور اہل سنت و الجماعت کے نزدیک رمضان کی تمام راتوں میں تراویح کی 20سنت موکدہ ہے۔سنت موکدہ کی تعریف یہ ہے کہ اس فعل کی آپﷺ نے تاکید کی ہو حقیقتاً یا حکماً۔ کبھی کبھار چھوڑا ہو۔ تراویح آپ ﷺ نے صرف چار دن پڑھی ہے۔ اس خوف سے ہمیشہ نہیں پڑھی کہ کہیں اُمت پر فرض نہ ہوجائے۔ اس طرز عمل سے حقیقتاً دوام تو ثابت نہیں ہوتا لیکن حکماً دوام ثابت ہوتا ہے اور سنت مؤکدہ ہونے کے لیےحکماً دوام بھی کافی ہے۔ اس لیے فقہائے کرام تراویح کو سنت موکدہ کہتے ہیں۔
ارشاد نبویﷺ ہے: ”جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرے اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔” (بخاری و مسلم، ابوداؤد، ترمذی) ایک اور روایت میں ہے کہ ”رمضان کی رات میں نفل نماز (جس میں تراویح بھی شامل ہے) کے ایک سجدہ پر 2500 نیکیاں ملتی ہیں۔”         (الترغیب و الترہیب)
20رکعت تراویح پڑھنے والوں کو حدیث کے مطابق روزانہ ایک لاکھ نیکیاں ملتی ہیں۔ جو لوگ 20 کی بجائے 8 رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔ وہ جمہور اہل سنت و الجماعت کے عمل کے خلاف کرتے ہیں اور خلفائے راشدین کی سنت سے اعراض کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمےں تراویح کی بیس رکعات پڑھنی چاہےے۔ تراویح رمضان کی تمام راتوں میں سنت موکدہ ہے۔ اس لےے رمضان کی تمام راتوں میں تراویح کا اہتمام کرنا چاہےے۔ چند روزہ تراویح پڑھ لینے سے تراویح ہرگز معاف نہیں ہوتی۔
اعتکاف کے معمولات:
صحیح احادیث میں منقول ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مسجد نبوی میں اسطوانہ توبہ کے پیچھے ایک جگہ مخصوص کردی جاتی ، جہاں پردہ ڈال دیا جاتا یا چھوٹا سا خیمہ نصب کر دیا جاتا، یہاں آپ ﷺنے تنہا تمام دنیوی تعلقات سے کنارہ کش ہوکر اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ۔اس خیمہ میں آپﷺکے لیے بستر اور چار پائی بچھانا بھی منقول ہے (زاد المعاد) حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش میں اعتکاف فرماتے تھے اسی لےے ایک سال پہلے عشرہ کا اعتکاف فرمایا پھر دوسرے سال درمیانی عشرے کا اعتکاف فرمایا پھر تیسری بار آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دی گئی کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے تو اس کے بعد سے ہمیشہ آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ ایک سال آپ اعتکاف نہ کرسکے تو شوال کے پہلے عشرے میں اس کی قضا فرمائی۔ حیات طیبہ کے آخری سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔     (زاد المعاد)
ارشاد نبویﷺ ہے: جو شخص رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔” ( بیہقی)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں راتوں کو خوب جاگتے اور عبادت کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے  بیدار فرماتے ۔     (بخاری، ترمذی)
دوران اعتکاف حضور نبی کریمﷺ نہ کسی مریض کی عیادت فرماتے۔ نہ جنازہ میں شریک ہوتے۔ نہ وظیفہ زوجیت ادا فرماتے۔ طبعی ضروریات (رفع حاجت) کے لیے  گھر جانا پڑتا تو راہ چلتے ہوئے بھی مریض سے زیادہ بات چیت اور لمبی چوڑی عیادت نہ فرماتے۔ (ابوداؤد)
احادیث مبارکہ سے اعتکاف کے یہ آداب معلوم ہوتے ہیں:
(الف) بغیر روزے کے اعتکاف نہ کیا جائے۔ روزے کے بغیر شرعاً اعتکاف ادا نہیں ہوتا۔
(ب)     اعتکاف میں فضول اور دنیوی باتیں نہ کی جائیں!
(ج)     ہمت اور طاقت کے مطابق راتوں کو عبادت سے قیمتی بنایا جائے۔
(د)     کاروباری تعلقات، ازدواجی تعلقات اور تمام دنیوی کاموں سے لاتعلق ہوکر اﷲ جل شانہ کی یاد اور اس کی عبادت کے لےے اپنے آپ کو وقف کردیا جائے۔ البتہ طبعی ضروریات مثلاً پیشاب، پاخانہ، طہارت وغیرہ کے لےے مسجد سے باہر نکلنا درست ہے۔
شب قدر کی تلاش اور اس کے معمولات:
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شب قدر کی تلاش سنت عمل ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعتکاف کا ایک مقصد شب قدر کی تلاش بھی ہوتا تھا۔ شب قدر کی عبادت ایک ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ جس شخص کو اس رات عبادت کی توفیق مل جائے اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردےے جاتے ہیں (مسند احمد، الترغیب)
قرآن مجید بھی شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شب قدر کی یہ دُعا منقول ہے: اَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّیْ۔ شب قدر پانے کا آسان طریقہ اعتکاف یا طاق راتوں میں عبادت ہے۔
عبادتوں کا خصوصی اہتمام:
حضور نبی اکرمﷺ دیگر مہینوں کے مقابلے میں رمضان المبارک میں عبادتوں کا اہتمام زیادہ فرماتے تھے۔ اس ماہ نوافل، ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات میں کثرت ہوجاتی تھی۔ رمضان کے ابتدائی دنوں میں کم آرام فرماتے اور اخیر عشرے میں سونا بالکل بند کردیتے۔ اس ماہ میں آپ ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔ جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا اعادہ اسی ماہ ہوا کرتا تھا۔ ہر سال ایک بار قرآن کا اعادہ ہوتا تھا، حیات طیبہ کے آخری سال دو بار قرآن کا اعادہ کیا گیا۔      (بخاری ، مسلم)
غم خواری کا مہینہ:
حضورﷺکاارشادہے:
”رمضان المبارک غم خواری کا مہینہ ہے۔”
جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب حیثیت مسلمانوں کو چاہےے کہ وہ اس مہینے میں غربا اور محتاجوں کی خصوصی طور پر کفالت کریں! ان کے سحر و افطار کا انتظام کریں اور اپنے صدقات اور زکوۃ سے ان کی مالی اعانت کریں! حضورﷺ کا ارشاد ہے: ”جو شخص ماہ رمضان میں روزہ دار کو افطاری کرائے تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے اس کی آزادی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ”
(صحےح ابن خزیمہ، بیہقی)
” روزہ افطار کرانے والے شخص کو اس روزہ دار کے روزے کا ثواب بھی ملتا ہے جس کو وہ روزہ افطار کرواتا ہے۔ جس کو روزہ افطار کروایا ہے اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی۔” (بیہقی)
رمضان میں گناہ کی سزا بڑھ جاتی ہے:
شریعت کا قاعدہ ہے کہ مبارک جگہوں اور مبارک ساعتوں میں عبادت کا ثواب جس طرح بڑھ جاتا ہے، گناہ کی سزا بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال روزہ رمضان کا کفارہ ہے۔ کفارہ صرف رمضان کے روزوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ عام روزوں کے توڑنے میں کفارہ نہیں صرف قضا ہے۔ یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ روزہ توڑنے کا گناہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں کیا گیا ہوتا ہے۔حضور خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں جھوٹ، غیبت، شور شرابے، گالی دینے اور گالی کا جواب دینے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص روزے میں بھی ان چیزوں سے باز نہیں رہتا اس کو روزے کا ثواب نہیں ملتا۔ حدیث کے مطابق” اﷲ تعالیٰ کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں جس میں روزہ دار جھوٹ وغیرہ سے باز نہ رہے۔” (بخاری، ابو الشیخ ، الترغیب)
”روزہ ، روزہ دار کے لےے ڈھال اس وقت ہے جبکہ وہ جھوٹ، غیبت اور گناہوں سے بچے۔”
(طبرانی اوسط)
روزہ صرف کھانے پینے سے باز رہنے کا نام نہیں۔ روزہ کا مقصد یعنی روحانیت اور تقویٰ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب روزہ دار روزہ میں فضول، نا مناسب اور گناہوں سے بچتا ہے۔” اگر کوئی شخص روزہ دار کو گالی دے تو روزہ دار کو چاہےے کہ وہ اس کو یوں جواب دے یا دل میں یہ سوچے کہ ” میں روزہ دار ہوں” گالی کا جواب ہرگز نہ دے۔”
(صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، حاکم)
آخری رات:
رمضان کی آخری رات کی بھی احادیث میں خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ”رمضان کی آخری رات میں اس اُمت کے تمام روزہ داروں کی اﷲ جل شانہ مغفرت فرما دیتے ہیں۔” (بیہقی، الترغیب) ”رمضان کے ہر دن اﷲ تعالیٰ دس لاکھ مسلمانوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں اور رمضان کی ٢٩ویں تاریخ کو ٢٩ دنوں کے برابر یعنی 2 کروڑ 90 لاکھ مسلمانوں کو جہنم سے آزادی نصیب فرماتے ہیں۔”      (الترغیب و الترہیب)

یہ ہے نبی اکرم ﷺ کا رمضان! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا ہی رمضان گزارنے کی مکمل کوشش کریں

 وماعلینا الا البلاغ

اپنا تبصرہ بھیجیں