افطار کی دعا پہلے پڑھی جائے یا بعد میں

افطار کے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے :(اللہم لک صمت)

وہ افطار شروع کرتے وقت پہلے پڑھنی چاہئے، یا افطار کرنے کےدرمیان ، یا بعدمیں ؟

الجواب باسم ملہم الصواب :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت پڑھی جانے والی تین دعائیں احادیث کی کتابوں میں وارد ہے :

۱۔ (اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ) ( ابوداود2358)

۲۔ (ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ) ( ابوداود2357)

۳۔ (أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ) ( ابو داود 3854 وابن ماجہ 1747 )

سائل نے پہلی دعا کے متعلق ہے دریافت کیا ہے، تو معلوم ہو کہ یہ دعا کی پانچ روایتیں کتب حدیث میں وارد ہیں :

۱۔ حضرت معاذ بن زہرہ تابعی کی مرسل روایت :

عن معاذ بن زُهْرة، أنه بلغه أن النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم- كان إذا أفطر، قال: “اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ” ۔ ( ابوداود2358)۔

کتب ستہ حدیثیہ میں یہ دعاصرف ابوداود شریف میں بروایت معاذ بن زہرہ کےواردہے ،حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے لیکن دارقطنی نے “سنن” 3/ 156میں ،اورحافظ ابن حجر نے”التلخيص الحبير” 2/ 202،میں سند کی تحسین کی ہے۔

اور اس روایت میں راوی کے مشہور الفاظ اسی طرح ہیں ( كان إذا أفطر ) البتہ بعض کتب حدیث میں( إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ ) کے الفاظ سے مروی ہے،جیسے:محمد بن فضیل کی (کتاب الدعا۶۶)اورابن المبارک کی (کتاب الزہد1411) میں اس طرح ہے :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» ۔

دعا کےبھی مذکورہ بالاالفاظ ہی زیادہ مشہور ومعروف ہیں  لیکن ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ 479) میں قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر کئے ہیں :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْتُ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْتُ» ۔

۲۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» ۔(الدعاء للطبرانی 918)۔

ابن الشجری نے (الامالی 1213) میں شروع میں بعض الفاظ کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت اس طرح ذکر کی ہے :

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، تَقَبَّلْهُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ “

مگر یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں داود بن زبرقان متروک الروایت راوی ہے (التلخيص الحبير 2/ 445)۔

۳۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (سنن الدارقطنی 2280 ،ابن السني 481)۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (المعجم الکبیر للطبرانی 12720)۔

ابن عباس کی روایت بھی شدید الضعف ہے ، سند میں عبدالملک بن ھارون بن عنترہ پر علماءحدیث نے سخت جرح کی ہے ، جھوٹ بولنے کی تہمت بھی لگائی ہے ۔ ینظر :البدر المنيرلابن الملقن (5/ 711)۔

۴۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 9744) ۔

اس روایت میں (مصنف ابن ابی شیبہ) کے بعض نسخوں میں راوی کے نام میں تحریف واقع ہوئی ہے ، (ابو زہرہ) کے بدلے (ابوھریرہ ) ہوگیا ہے ، صحیح (ابو زہرہ) ہے ، اور یہ معاذ بن زہرہ تابعی کی کنیت ہے ، امام محمد بن فضیل ضبی کی (کتاب الدعاء 66)میں بھی (ابو زہرہ) ہے، جن کے واسطہ سے ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ابن المبارک کی (الزہد) کی روایت سے بھی تایید ہوتی ہے ۔

تحریف واقع ہونے کی وجہ سے ابن الملقن نے (البدر المنیر )میں کہا : وَذكره صَاحب «الْمُهَذّب» من حَدِيث أبي هُرَيْرَة، ثمَّ بيض لَهُ الْمُنْذِرِيّ، واستغربه النَّوَوِيّ وَقَالَ: إِنَّه لَيْسَ بِمَعْرُوف.

۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت :

يَا عَلِيُّ إِذَا كُنْتَ صَائِمًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقُلْ بَعْدَ إِفْطَارِكَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ۔(مسند الحارث بن ابی اسامہ 469)۔

یہ روایت بھی کافی ضعیف ہے(وقد تکون موضوعہ) سند میں انقطاع ہے  ایک راوی السري بن خالدمجہول ہے، اورحمادبن عمرونصيبي متروك الروایت ہے،عبد الرحيم بن واقد میں بھی کلام ہے ۔(تخریج المطالب العالیہ (6/ 141) برقم1074) ۔

تعلیق وتوضیح :

الفاظ روایت :

مذکورہ بالا روایات میں اس دعا کے پڑھنے کے وقت کی تعیین صراحتا مذکور نہیں ہے کہ افطار سے قبل پڑھی جائے یا افطار شروع کرنے کے بعد دوران افطار یا افطار سے فارغ ہونے پر  تینوں احتمال ہیں یعنی (قبلیت ، بعدیت، اثنائیت) البتہ روایات کے بعض الفاظ سے ، ان تینوں معانی میں سے کوئی ایک معنی مترشح ہوتا ہے ، چنانچہ :

۱۔ اثنائیت ( دوران افطار)یعنی افطار شروع کرنے کے بعدپڑھنے پر ،معاذ بن زہرہ کی روایت ( إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ ) دلالت کرتی ہے ، اس لئے کہ ( ثُمَّ أَفْطَرَ )سے افطاری شروع ہونا معلوم ہوتاہے۔

۲۔جبکہ حضرت انس کی روایت ( إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ )میں قبلیت کی دلالت اقوی ہے ۔

۳۔ رہ گئی حضرت علی کی روایت ، تو اس میں بعدیت کی تصریح وارد ہے( فَقُلْ بَعْدَ إِفْطَارِكَ ) لیکن بعدیت سے (افطار سے فارغ ہونے )کا مطلب لینا ضروری نہیں ہے ، بلکہ افطارکا ادنی حصہ تناول کرنے سے بعدیت کا معنی متحقق ہوجاتاہے  گویا کہ یہ معنی بھی پہلے معنی کی طرف لوٹتا ہے۔

شروحاتِ حدیث :

شراح حدیث کے یہاں عموما دعا کے وقت کی تعیین مذکور نہیں ہے،البتہ بعض حنفی شراحِ حدیث نے بعدیت کی تصریح کی ہے ، جیسے :

۱۔ زبدانی حنفی نے (المفاتیح فی شرح المصابیح 3/ 23) میں لکھاہے:

ورُوي: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كانَ إذَا أَفْطَرَ قال: “اللهمَّ لكَ صُمْتُ، وعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ”. قوله: “اللهم لك صمتُ، وعلى رزقك أفطرتُ”؛ يعني: لم يكن صومي رياءً، بل خالصًا لك؛ لأن الرازقَ أنتَ، فإذا أكلتُ رزقَك – ولا رازقَ غيرُك – فلا ينبغي العبادةُ لغيرك، وهذا الدعاء يُقرَأ أيضًا بعد الإفطار.

۔ ابن الملک حنفی نے (شرح المصابيح 2/ 518) میں کہا:

“وعن ابن عباس أنه قال: إن النبي – عليه الصلاة والسلام – كان إذا أفطر قال: اللهم لك صمتُ”؛ يعني: لم يكن صومي رياء، بل كان خالصاً. “وعلى رزقك أفطرت”؛ لأنك الرزاق، يُقرَأ هذا الدعاءُ بعد الإفطار.

۳۔ وتابعہ الملا علی القاری فی (مرقاة المفاتيح 4/ 1387) مؤیدا مقررا ۔

۴۔ حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب نے (معارف الحدیث ۴/۳۶۸ ) پر افطار کی مذکورہ دعا اور (ذہب الظمأ) دونوں کوپیش کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :مندرجہ بالا دونوں دعاؤں کے الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ کلمات کہتے تھے ۔

کتب فقہ :

فقہ حنفی کی کتابوں میں اس دعا کے پڑھنے کا وقت (عند الافطار) [تبيين الحقائق (1/ 342)] یا (حین الافطار ) [ مجمع الأنهر (1/ 248)] لکھا ہے ، اسی طرح دوسرے مذاہب فقہیہ کی کتابوں میں بھی مطلقا(عندالافطار ) مذکور ہے ۔

لیکن شوافع کی کتابوں میں بالخصوص (عقب الافطار )کی تصریح ہے ، چند عبارتیں ملاحظہ فرمائیں :

وَأَنْ “يقول عقب” هُوَ أَوْلَى مِنْ قَوْلِهِ “عِنْدَ فِطْرِهِ” : اللَّهُمَّ لَك صُمْت وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت ۔[ فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب (1/ 142)]۔

ويسن أن يقول عقب الفطر: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت،ويزيد من أفطر بالماء : ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله تعالی۔[ فتح المعين بشرح قرة العين بمهمات الدين (ص: 274)]۔

(وَأَنْ يَقُولَ عِنْدَ) أَيْ عَقِبَ (فِطْرِهِ : «اللَّهُمَّ لَك صُمْت وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت» ) لِلِاتِّبَاعِ۔[ نهايۃ المحتاج إلى شرح المنهاج (3/ 183)]۔

(قَوْلُهُ: عَقِبَ فِطْرِهِ) أَيْ عَقِبَ مَا يَحْصُلُ بِهِ الْفِطْرُ … بَلْ نُقِلَ أَيْضًا أَنَّهُ يَكْفِي دُخُولُ وَقْتِ الْإِفْطَارِ ،لَكِنْ رُبَّمَا يُنَافِيهِ « وَعَلَى رِزْقِك أَفْطَرْت » اهـ. بِرْمَاوِيٌّ (قَوْلُهُ: هُوَ أَوْلَى مِنْ قَوْلِهِ عِنْدَ) ؛ لِأَنَّ الْعِنْدِيَّةَ تَصْدُقُ بِالْقَبْلِيَّةِ فَتَأَمَّلْ ۔[حاشيۃ الجمل على شرح المنهج (2/ 330)]۔

(وقوله: عقب الفطر) أي عَقِب ما يحصُل به الفطر، لا قبله، ولا عنده۔[ إعانۃ الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين (2/ 279)]۔

اسی طرح فقہ حنبلی کی ایک کتاب میں یہ وضاحت ہے :

وقولُه عندَه: “اللهم لك صمتُ، وعلى رزقك أفطرتُ، سبحانك وبحمدك، اللهم تقبَّل مني إنك أنت السميعُ العليمُ” ۔ قوله: (عنده)؛ أيْ: بعد استعمال المُفطر ، ليحصل تمامُ التطابق بينه وبين قوله: (وعلى رزقك أفطرت) ويؤيده ما في حواشي ابن نصر اللَّه على الفروع۔[ حاشية الخلوتي على منتهى الإرادات (2/ 233)]۔

کتب فتاوی:

ان کتابوںمیں اس دعا کو افطاری سے پہلے پڑھنا لکھا ہے، اور (ذهب الظمأ) کے کلمات افطاری کے بعد، ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ مسائل رفعت قاسمی ۴/۱۸۰ ، قاموس الفقہ ۴/۲۹۶ ، ’’تحفۃ المسلمین ‘‘۵۶۰مولاناعاشق الٰہی۔

۲۔ دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند،کا جواب # 68390 :

”اللہم لک صمت، وعلی رزقک أفطرت“ اس دعا کے بارے میں احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ یہ دعاء افطار کے بعد کی ہے یا پہلے کی؛ البتہ معمول یہ ہے کہ یہ دعا افطار کرنے سے پہلے افطار شروع کرتے وقت پڑھی جاتی ہے اور بظاہر یہی صحیح ہے،دعا کے الفاظ اگرچہ فعل ماضی کے ہیں، لیکن اس طرح کے موقعوں پر فعل ماضی کا استعمال معروف ہے، نیز افطار کے بعد کی دعا دوسری ہے، یعنی: ذہب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر ان شاء اللّٰہ۔ اس دعا کے بارے میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ یہ افطار کے بعد کی دعا ہے ۔ ( بذل المجہود: ۱۱/۱۶۰، باب القول عند الافطار، ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت ) واللہ تعالیٰ اعلم۔

۳۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کےایک فتوی کا اقتباس :

زیادہ مناسب یہی معلوم ہوتاہے کہ ان دعاؤں میں سے پہلی دعاافطاری سے قبل پڑھی جائے جب کہ لوگ افطاری سے قبل دیگردعاؤں میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔اوردوسری دعا افطاری کے بعدپڑھی جائے جیساکہ اس کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔فقط واللہ اعلم ۔

خلاصہ:

دونوں قول موجود ہیں ، افطاری سے پہلےپڑھنے کا قول ،اور افطاری کے بعدکا قول، اور ہر ایک قول کے دلائل ہیں :

(قبلیت) کے قائلین کے بعض دلائل :

۱۔ (اذا افظر ) سے مراد :اذا اراد الافطارہے، جیساکہ اس طرح کی روایات میں تاویل کی جاتی ہے ، ماضی کی اصل دلالت مراد نہیں ہوتی ہے۔

۲۔ روزہ دار کی دعا کی قبولیت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے ، روایتیں اس سلسلہ میں تین طرح کی ہیں :

روزہ دار کی مطلقادعا قبول ہونا : عن أبي هريرة رضي الله عنه قَالَ: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ( ثلاث دعوات مستجابات: دعوة الصائم، ودعوة المظلوم، ودعوة المسافر ). رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الدعاء(رقم1313)، وَالبَيْهَقِيُّ فِي الشعب(7463) .

روزہ دار کی دعا افطار تک قبول ہوتی ہے : عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( ثلاثة لا ترد دعوتهم: الصائم حتى يفطر، والإمام العادل، ودعوة المظلوم؛ يرفعها الله فوق الغمام، ويفتح لها أبواب السماء، ويقول الرب: وعزتي لأنصرنك ولو بعد حين ) الترمذي في سننه(رقم 3598)، وابن ماجه(رقم 1752) ۔

تنبیہ : امام نووی نے (خلاصۃ الاحکام ) اور ( الاذکار) میں یہ لکھا ہے کہ: ( حتی یفطر) ہی محفوظ اور وارد ہے اس روایت میں ، یعنی بعض روایتوں میں (حین یفطر) جو وارد ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

روزہ دار کی عین افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے : عن عبدالله بن عمرو بن العاص يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( إن للصائم عند فطره لدعوة ما ترد ).قال ابن أبي مليكة: سمعت عبدالله بن عمرو يقول إذا أفطر : ” اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي” .رَوَاهُ ابن مَاجَهْ(1753)، وابن السني فِي عمل اليوم والليلة(481) .مالکیہ کی بعض کتابوں میں ہے کہ : قبولیت کی یہ گھڑی لقمہ منھ کی طرف اٹھانے اور منھ میں ڈالنے کے درمیان ہے ، انظر الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني (1/ 305)۔

۳۔ تعامل بھی اسی پر ہے ، اور افطار کے ہنگامہ میں دعابھول جانا بھی بہت ممکن ہے ، اس لئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے پڑھ لی جائے ۔

۴۔ کتب مسائل وفتاوی سے تایید۔

(بعدیت) کے قائلین کے بعض دلائل :

۱۔ دعا کے الفاظ ماضی کے ہیں ، جو کام کے ہوجانے پر دلالت کرتے ہیں ۔اور تاویل کرنا خلاف اصل ہے۔

۲۔ کھانے کی جو دیگر دعائیں منقول ہیں ، وہ سب بعد میں پڑھی جاتی ہیں ، تو یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔

۳۔ تطابق قول مع الفعل، یعنی دعا پڑھنے والا جب افطار کے بعدمذکورہ دعا کو پڑھے گا، تو وہ ماضی کے الفاظ سے حقیقت حال کی تعبیر کر رہا ہوگا کہ وہ افطار کرچکاہے۔

۴۔ افطاری میں تعجیل مرغوب ومسنون ہے  تو اس میں جلدی کرنا مناسب ہے ، رہی دعا تو وہ بعد میں ہوسکتی ہے ۔

۵۔ شارحین حدیث کے اقوال سے تایید ، جو اوپر ذکر کئے گئے۔

۶۔ (اذا افطر) اذا کے بعد ماضی کا صیغہ جب لایا جاتا ہے ، تو اس سے بکثرت کام کے واقع ہوجانے کے بعد کا معنی مراد لیا جاتاہے ، اور کام کے شروع ہونے سے پہلے کا معنی مراد ہونا قلیل ہے ، اور اس میں تاویل بھی کرنی پڑتی ہے ۔

میری رائے یہ ہے کہ : ان تمام اقوال پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ، سب کے یہاں دلائل ہیں ، کسی ایک قول پر اصرار کرنا ، اسی کو ارجح قرار دینا ، اور دوسرے اقوال رد کرنا یا خلافِ سنت قرار دینا مناسب نہیں ہے ، اس لئے روزہ دار کو اختیار ہے جس طرح بھی کرنا چاہے کرسکتا ہے :

۔افطار شروع کرنے سے پہلے مذکورہ دعا پڑھ لے جیساکہ تعامل ہے

۔یاافطار کے دوران پڑھےجیساکہ شوافع وحنابلہ کی کتابوں سے مستنبط ہے

۔ یا افطار کے بعد ، فارغ ہوجانے پر پڑھ لے جیساکہ بعض صحابہ کااس وقت دعا کرنےکا معمول منقول ہے

مذکورہ تمام صورتوں کا احتمال ہے ۔البتہ اس مسئلہ میں جگھڑنا اور دوسروں کی طرف خصوصا بعد میں پڑھنے کے قائلین کی طرف کم علمی یا جہالت منسوب کرنا ، خود نسبت کرنے والے کی جہالت کی دلیل ہے ۔

بقیہ دونوں دعائیں (ذہب الظمأ ) اور (افطر عندکم الصائمون ) افطاری کے بعد کی ہیں ، بلا اختلاف فیہ ان شاء اللہ ۔

واللہ الموفق والہادی الی الصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں