اجتماعی شادی کا رواج

اجتماعی شادی کا بیڑہ اٹھا کر یتیم و بے سہارا خواتین کی خدمت کا درد رکھنے والے درحقیقت ان کے درد کو فروخت کرکے اپنی ویلفیئر کا دھندہ کرنے والے وہ ساھوکار ہیں جو غرباء یتیمٰ مساکین کی عزت نفس کا خون کرنے کے لیے معرض وجود میں لائے گئے ہیں.

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایک لمحے کے لیے سوچیے تو سہی ایک ہمدرد انسان بن کراسٹیج پر ۱۵ دلہنیں اپنے ماتھے پر غربت کا ٹیکہ لگائے سجی سنوری بیٹھی ہیں۔

دلہا کی پیشانی سے عرق ندامت ٹپک رہے ہیں۔

معاشرے کے چند رؤسا اور بیگمات مائک ہاتھوں میں تھام،ے اعلان کررہے ہیں۔

خواتین و حضرات متوجہ ہوں۔

آج جن ۱۵ جوڑوں کی شادی میں آپ کو مدعو کیا گیا ہے یہ معاشرے کے وہ غریب ترین فرد ہیں جن کو ہماری انجمن…….. نے سہارا دے کر ان کی شادی کے مکمل اخراجات برداشت کیے..

ہماری یہ کاوش آپ کے سامنے ہے۔

آئیے اور دل کھول کر اس نیک کام میں ہماری مدد کیجیے۔

ہال تالیوں سے گونج رہا ہے۔

مگر غیرت مند دلہا اور دلہنوں کا غربت کے اس اشتہار کو دیکھ کر دامن غیرت تار تار ہورہا ہے

اور وہ شرم کے مارے زمین میں گڑتے ہوئے دل ہی دل میں اپنے رب کی بارگاہ میں محو التجاء ہوتے ہیں۔

باری تعالیٰ ہمیں جلد اس ذلت کدے سے نکال باہر فرمادے۔

یہ شادی ہے یا رسوائی ،یہ خوشیاں ہیں یا ذلت کا تماشہ ہے۔ہمارے اس بےحس معاشرے میں آئے دن اس قسم کے بیشمار نظائر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جہاں رمضان المبارک میں پینا فلیکس لگاکر غرباء کو ۵ گھنٹے لائن لگواکر ۲۰ کلو آٹا اور ۱۰۰ کلو ذلت دی جاتی ہے..

کیا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اسوۂ بھول گئے؟

جو اپنی کمر پر راشن لاد کر ایک بیوہ کے گھر روتے ہوئے پہنچانے جارہے ہیں اور آپ کا خادم اسلم کہتا ہے…..

امیرالمؤمنین! آپ رہنے دیں۔

مجھے دیجیے۔

میں اٹھاتا ہوں۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک نظر اپنے خادم کو دیکھا اور فرمایا…

اسلم کیا قیامت کے دن بھی تو عمر کا بوجھ اٹھائے گا.؟

جہاں اپنی عزت نفس کو امت کا بوڑھا فرد آنسو بہاکر اپنے چہرے کو رومال سے چھپانے کی کوشش کرتا ہوگا مگر ایک آواز آتی ہے…

بابا جی کیمرے میں دیکھو۔

اور وہ غریب کیمرے میں دیکھتا ہے ۔

دل میں ایک ٹھیس  اٹھتی ہے۔

کاش آج قبر کا گڑھا ہی دیکھ لیا ہوتا۔

جہاں ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں غریب ماں کو دو گھنٹہ کھڑا کرکے ایک رضائی دے کر دین کی خدمت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔

جہاں امت کے ایک معذور کو ڈھول پیٹ پیٹ کر واویلا کرکے اعلانات کے ساتھ ایک عدد وہیل چیئر دے کر اس کی معذوری پر لات ماری جاتی ہے۔

ظالموں! غریب پروری کا اسلوب قرآن سے سیکھو۔

بند کردو غریب و یتیم ماؤں بہنوں اور بزرگوں کی تذلیل۔

اگر ان کی جگہ تمھاری ماں باپ بہن یا بیٹی ہوتی تو کیا اس وقت بھی ” غربت کی شوٹنگ” کرتے ؟

صدقہ تو ایک ہاتھ سے ایسے دیا جاتا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔

پھر ایسا کیوں ‍؟ ‍

ماخوذ

اپنا تبصرہ بھیجیں