الحاد کے اسباب ومحرکات

الحاد (چودہویں قسط)

(1) الحاد کے پس پردہ  عقل کا بےمہار استعمال ہے۔عقل خود مادے کی پیداوار ہے اورمادی قوتوں کے ذریعے غیر مادی ہستی کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے۔

(2) ایسی الجھنوں کے پیدا ہونے کا دوسرا بنیادی سبب دراصل اپنی حدود سے تجاوز کر نا ہوتا ہے۔ نفسی قوتوں کا غلبہ انسان کو تکبر اور بڑائی میں مبتلا کر دیتا ہے، یوں ناپاک قطرے سے بنا انسان اپنی غلاظتوں کو بھول کرکبھی انفرادی حیثیت میں اناربکم الاعلیٰ کا نعرہ لگاتا نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی طور پر انسان کو خدا کے درجے پر فائز کرتے ہوئے لا الہ الا الانسان کاکلمہ پڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

(3) سائبر میڈیا کے علاوہ الحاد پھیلنے کا ایک سبب ملحد اساتذہ بھی ہیں۔تعلیم کبھی بری نہیں ہوتی، تعلیم دینے والے اسے برا بنادیتے ہیں۔اعلی تعلیمی اداروں میں لادین اور ملحدقسم کے ٹیچرز اور لیکچرار بچوں کے معصوم ذہنوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ملحداساتذہ ،بچوں کی تربیت اپنے مائنڈسیٹ کے مطابق کررہے ہیں۔این جی اوز بھی بچوں کی ابتدائی تعلیم پر فوکس کیے ہوئے ہیں تاکہ شروع سے ہی بچوں کے ذہنوں پر قبضہ کیاجاسکے۔گویاتعلیم کو وہ ہتھیار اور خاموش تحریک کی صورت دیے ہوئے ہیں۔

(4) معاشی مجبوریاں بھی الحاد کا سبب بن رہی ہیں۔ جب مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائیوں کی امداد ونصرت سے غفلت برتیں گے اور ارباب حل وعقد نوجوان نسل کے لیے معاشی منصوبے شروع نہیں کریں گے تو پیٹ سے مجبور وہ غیروں کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔

(5) نوجوان نسل رائج مذہبی و سماجی فکر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرے سے مایوس ہیں اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ یہ فکر فرد کو انفرادی آزادی و خوشی دینے میں ناکام ہورہی ہے۔ اجتماعی سطح پر بھی کوئی مادی و اخلاقی مقام ہمیں حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکا ن نظر آتا ہے۔ یہی مایوسی انہیں متبادل نظام فکر کی طرف مائل کررہی ہے۔ ایسی فکر جو شخصی و معاشرتی آزادی دے اور جو دنیا میں نتائج پیدا کرے صرف خواب نہ دکھائے۔ 

(6) نوجوان نسل کے ذہنوں میں طالب علمی کے زمانے سے خصوصا سائنس کی تعلیم میں کئی طرح کے اشکالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں،نوجوان اپنی الجھنیں لے کر روایتی علماء ومشائخ کے پاس جاتے نہیں اور اگر جاتے ہیں تو عموماان کا رویہ کچھ زیادہ ہمدردانہ نہیں ہوتا۔ اول تو ان کے اوپر ملحد کا الزام لگا کر بھگا دیا جاتا، یا کہا جاتا کہ ایسےسوالوں پر غور نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ یا انہیں پڑھنے کے لیے پرانے علماء کی کتابیں پکڑا دی جاتی ہیں۔ ان پرانے علماء کی کتابیں اگر عقیدت سے پڑھی جائیں تو ہی فائدہ دیتی ہیں اور اگر تشکیک کے ساتھ پڑھی جائیں تو مایوسی ہوتی ہے۔

(7) ٹیکنالوجی اور ذہن کا اشتراک ایک منفرد ذہن اور شخصیت پیدا کررہا ہے۔ اول تو یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ سارا علم انٹرنیٹ پر موجود ہے اور علم کی اس بہتات اور تیزی نے تجزیے اور گہری فکر کے مواقع محدود کردیے ہیں۔ اب کسی بات کے سچ یا جھوٹ جاننے کے لیے وقت بہت محدود ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو معلومات زیادہ، میسر اور مقبول ہے وہ ہی ٹھیک ہے۔ یہ صورتحال مذہبی و الحادی فکر دونوں کے پھیلاؤ میں کارآمد ہورہی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا نے اجتماعی رائے سازی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں