الحاد کے خاتمے کے لیے چند تجاویز

الحاد ( سولہویں قسط )

(1) یوں تو ٹی وی وغیرہ کے مقابلے میں انٹر نیٹ کی شرعی حیثیت شروع سے جواز کی رہی ہے لیکن مندرجہ بالا عبرت انگیز حالات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے منفی پہلو اس کے مثبت پہلو سے کئی گنا بڑھ کرسامنے آ رہے ہیں۔خصوصاً ان نوجوانوں کے لیے یہ بے حد خطرناک ہیں جن کے ذہن سادہ سلیٹ ہوتے ہیں اورجن پر کوئی بھی اپنے نظریات کی تحریر لکھ سکتا ہے وہ تحریر جو اکثر اَن مٹ ثابت ہوتی ہے۔اس لیے نوجوانوں کو نیٹ استعمال کرنے کی کھلی آزادی دینے کی بجائے ان کی نگرانی بہت ضروری ہے۔

(2) فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر جذبۂ ایمانی سے سرسار کچھ سادہ لوح مسلم اپنی کم علمی کے باوجود ملحدوں سے بحث مباحثہ میں لگے رہتے ہیں۔ ٹھوس دینی و دنیاوی علم کے بغیر اس بحث مباحثے کے نتیجے میں کسی ملحد کو تو ایمان والا بنتے نہیں دیکھا البتہ بعض ایمان والوں کے ایمان کے لالے پڑتے دیکھا ہے۔اس لیے رد الحاد کی محنت کرنے والوں کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ان کے پاس بھرپور علمی رسوخ ہو۔فیس بک پر مختلف فورم چلانے والے ملحد پیشہ ور اور مکمل تربیت یافتہ ہیں جو وجود باری تعالیٰ‘ پیغمبراسلام ﷺ  قرآن اور احادیث کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور بڑی آسانی سے نا پختہ اذہان و ایمان کے حامل کم علم والے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتے ہیں۔

سادہ لوح عوام اس آسمانی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مباحثوں میں حصہ لینے سے گریز کریں:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا

(النساء:آیت 140)

اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے واﻻ ہے۔‘‘

(3) اس کے علاوہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک مسلمان الحاد کی گھاٹیوں میں تب ہی اترتا ہے، جب اسے شکوک و شبہات اور وسوسے گھیر لیتے ہیں اور وہ کسی سے اس کا جواب نہیں پاتے یا پھر اپنی عقل پر بھروسہ انہیں کسی سے کچھ پوچھنے نہیں دیتا، یوں اندر ہی اندر شیطانی وسوسے بالآخر خدا کے انکار کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وسوے ہر ایک کو آتے ہیں، اس لیے کبھی کوئی نوجوان اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے بڑی حکمت عملی سے واضح دلائل کے ذریعے اس کا ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ غصہ کرنے کی بجائے مضبوط استدلال کی ضرورت ہے۔اگر کوئی بے کار ہے تو اسے مصروف کر دینا چاہیے کہ خالی گھر میں شیطان ڈیرہ ڈال ہی لیتے ہیں۔ اگر کوئی بہت بری طرح وسوسوں کا شکار ہو، تو کسی بڑے عالم دین کے پاس لے کر جانا چاہیے، کیوں کہ کبھی براہِ راست جواب کی بجائے ایسے شک کے مریضوں کا علاج صرف الزامی جوابات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ 

(4) اس کے علاوہ ہمارے خیال میں ہر شبہ، ہر شک کا حل محبت ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت پیدا کرنے کے لیے اللہ والوں کی صحبت بہت ضروری ہے۔ انسانوں کی نفسیات یہی ہے کہ جب ان میں محبت پیدا ہوتی ہے تو پھر ان کے سارے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، اور محبت کا مرکز عقل نہیں وجدان ہے۔ نری عقل کے ذریعے محبت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا عقل محبت کے فلسفے اور راز کو نہیں سمجھ سکتی۔اس کے لیے وجدانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پھروجدان خود گواہی دیتا ہے کہ ربّ کائنات بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔اسی وجدان کو بیدار کرنے کے لیے اللہ والوں کی صحبت ازحد ضروری ہے، اور اللہ والے ملتے ہیں دینی مراکزمیں مدارس  خانقاہوں میں اور اللہ کے راستے میں۔

(5) اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ الحاد کے فتنے کو سمجھیں ، اس حوالے سے محنت کریں اور اس کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کریں۔

(6) ان سطور کے ذریعے ہم اربابِ اختیار سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک کمیٹی بنا ئی جائے، جو فحاشی وعریانی اورالحاد کی مبلغ ویب سائٹس اور بلاگز کی فہرست بناکر حکومت کو پیش کرے، تا کہ ان تمام ویب سائٹس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل پابندی لگائی جائے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو مسلمانانِ پاکستان کو بھرپور احتجاج کر کے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں