اسلام  اورسائنس

اسلام : اسلام  کیا ہے ؟

سلامتی کا مذہب وہ مذہب جو بربادی نہیں  چاہتا ۔اسلام  اس کائنات میں امن دیکھنا چاہتاہے ایسا امن جو لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتارہے اللہ نے پوری کائنات   کےذرے ذرے  میں راز پوشیدہ  کردیے  پھر رازوں  سے پردہ اٹھانے کے لیے  انسان کو پیدا کیا۔ یہاں تک کہ اس کی پیدائش سے لے کر موت  تک میں بہت سے راز پوشیدہ  ہے۔ پھر اسے ہدایت  کا علم یعنی  “قرآن”  دیا انسان زندگی  کے مقصد کو تلاش کرے ۔اردگرد کے ماحول ،اٹھنے  بیٹھنے، کھانے پینے ،سونے جاگنے راز پوشیدہ ہیں وہ  تلاش کرے ۔قرآن   کوذادراہ بنائے کیونکہ یہ کامیابی  کی کنجی ہے ۔

سائنس : ان پوشیدہ  رازوں کوجاننے کے لیے انسان اپنے دماغ کو استعمال کرتاہے اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے ۔اس کو سائنس کانام دیاجاتا ہے ۔جبکہ راستہ تو خوداللہ نےقرآن  کے ذریعے  بتادیا ہے  بس وہاں تک پہنچنا  ہے ۔توآئیے ان رازوں  تک پہنچنے  کی کوشش کریں ۔

یہ قرآن کلام الٰہی  ہے کوئی معجزہ  نہیں۔سائنسی دریافتوں  کی روشنی میں ثابت ہوجائے گا۔

قرآن کا چیلنج  :۔

جس طرح پہلے تہذیبوں میں ادب  وشاعری کو اہم مقام حاصل تھا۔ایسے ہی  موجودہ دور میں سائنس وٹیکنالوجی  اہمیت اختیار کرگئی ہے ۔غیر مسلم اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن  عربی ادب  کی نہایت عمدہ  کتاب ہے ۔قرآن کا یہ چیلنج ہے کہ  اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔

إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴿٢٤﴾

ترجمہ :ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤتمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو

پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

قرآن نے یہ  چیلنج کئی مرتبہ دہرایا ہے۔قرآن  کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے  کہ قرآن اور جدید سائنس میں کتنی ہم آہنگی  پائی  جاتی ہے ۔مگر  قرآن کوئی سائنس  کی کتاب نہیں بلکہ احکامات  کی کتاب ہے  اس میں زندگی  سے پہلے اور زندگی  کے  بعدآنے ولے ہر پہلو  سے  متعلق احکامات  موجود  ہیں۔موازنہ درج ذیل ہے۔

1۔فلکیات  (Astronomy)

کائنات کی تخلیق:۔

ماہرین کے مطابق یہ کائنات  ایک عظیم  دھماکے “بگ بینگ ” سے وجود میں آئی اور پھیلتی  چلی جارہی ہے  ۔

بگ بینگ کے مطابق ابتداء میں ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں  تھی ۔پھر ایک دھماکہ ہوا اور کہکشائیں  وجود میں آئیں ۔کہکشائیں تقسیم ہوکر ستاروں ،سیاروں ،سورج،چاندوغیرہ  کی صورت میں آئیں ۔

وَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿٣٠ ) سورۃا لانبیاء

ترجمہ : کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں   لاتے ۔

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧﴾ ( سورۃ الذٰریات )

ترجمہ :آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔

یہ آیات  کائنات کی وسعت پذیری پر دلالت کرتی ہے ۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٣٣) سورۃ  الانبیاء

وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٤٠﴾سورۃ یٰس

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہےاور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔

ان آیات میں سورج اور چاند کا اپنے اپنے محور میں گردش کرنے کی وضاحت  ہے ۔

2۔نباتات(ovueles)

پودوں میں نراور مادہ:۔

جدید نباتیات یہ  بتاتی ہے  کہ پودوں  میں بھی نر اور مادہ  ہوتے ہیں۔قرآن اس کی وضاحت کرتا ہے ۔

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ ﴿٧﴾ ( سورۃ الشعراء  )

کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں؟ کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں؟

پھلوں میں نراور مادہ :۔

وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٤٩﴾

اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیداکیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

پودوں میں پھل سے پہلے  اس کا پھول نکلتا ہے   جس میں نر  اور مادہ کے جراثیم  یعنی  stamens  اور ovules  ہوتے ہیں  جب کوئی زردانہ ( pollen )   پھول تک پہنچتا ہے۔تبھی وہ پھول   پھل  میں تبدیل ہوتا ہے ۔ قرآن یہ سچائی صدیوں پہلے  بیان کرچکا ہے ۔ جب  انسانی دماغ  نے یہ سچائی  دریافت نہ کی تھی ۔

3۔حیوانیات   (Zoology )

جانور اور پرندے  اللہ کے حکم کے مطابق معاشرہ بناکر دیتے ہیں۔ غور  کرنے سے معلوم ہوتا ہے  معاشرہ  بنانے کے بہت  سے فائدے  ہیں۔دشمن کے حملہ کرنے پر سب  مل کر مقابلہ کرتے  ہیں سب مل کر گھر چلاتے ہیں۔ اور اپنی نسل کی  نشوونما کرتے ہیں۔

 أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ ﴿١٩﴾

کیا یہ اپنے اوپر پر کھولے ہوئے اور (کبھی کبھی) سمیٹے ہوئے (اڑنے والے) پرندوں کو نہیں دیکھتے، انہیں (اللہ) رحمٰن ہی (ہوا وفضا میں) تھامے ہوئے ہے۔ بیشک ہر چیز اس کی نگاه میں ہے۔

عربی لفظ  ام سک کا  لفظی ترجمہ 

ہاتھ میں ہاتھ دینا یا تھامنا کے ہیں۔درج بالا آیت میں  یمسکھن  سے مراد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے پرندوں  کو تھامے ہوئے ہے  ۔وہ اللہ  کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق  چلتے ہیں۔

جدید سائنس سے یہ بات ثابت   ہوچکاہے  کہ بعض  پرندوں  میں پرواز کی بے عیب  صلاحی اور منصوبہ  بندی  ہوتی ہے ۔موسموں کے حساب سے  وہ اپنے آشیانے  بدلتے  رہتے ہیں اور طویل سفرا ور پیچیدہ راستوں سے ہوتے ہوئے  دوسرے مقامات  پر  منتقل ہوجاتے  ہیں۔پھر موسم  بدلتے ہی واپس اپنے  پرانے مسکن  پر ٹھیک ٹھیک پہنچ جاتے ہیں ۔یہ تمام باتیں پرندوں کے دماغ میں ایک پروگرام کی شکل میں موجود ہوتی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس پروگرام  کو  تشکیل دینے ولا یقیناً کوئی  ہے ۔

شہد کی مکھی کی مثال : وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٦٨﴾ وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿٦٩

اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں، اللہ ہی کے لیے پاکی ہے وه بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں

ان کے سینے جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر  کرتے ہیں آپ کا رب سب کچھ جانتا ہے۔

4۔طب   (Medician)

شہد انسا نیت کے لیے شفا کا حامل ہے

ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿69) سورۃ النحل )

اور ہر طرح کے میوے کھا اور اپنے رب کی آسان راہوں میں چلتی پھرتی ره، ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے غوروفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بھی بہت بڑی نشانی ہے

شہد کی مکھی  پھولوں اور پھلوں سے رس  چوستی ہے ۔اسے اپنےا ندر شہد میں تبدیل کردیتی ہے  پھر موم سے بنے  خانوں میں جمع کردیتی ہے ۔آج  سے صرف چند صدیوں قبل  ہی انسان کو معلوم  ہو ا کہ شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے ۔مگر قرآن نے 1400 سال  پہلے  یہ واضح کردیاتھا،۔

شہد کے بہت سے فائدے ہیں ۔ یہ  نرم اور جراثیم کش ہے  دوسری جنگ عظیم میں روسیوں نے زخم  ڈھانپنے  کے لیے  شہد کا استعمال کیا تھا۔

الزائیمر ( ایک بیماری کا نام ہے) میں مبتلا  22 مریضوں کا علاج  propolis نامیمادے سے کیا گیا۔ جو شہد کی مکھی  پیدا  کرتی ہے  اور چھتے  کے خانوں کو جراثیم  سے روکنے کے لیے استعمال  کرتی ہے ۔شہد میں 200 کے قریب  اجزاء پائے جاتے ہیں ۔

5۔انگلیوں کے نشانات  (finger print )

أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿٣﴾ بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ سورۃا لقیامۃ

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں

1400سال پہلے کفار نے جب اعتراض کیا کہ مرنے کے بعد جب ہڈیاں تک گل سڑ جائیں گی تودوبارہ  کیسے یکجا ہوگی۔اس آیت  میں واضح جواب دیاگیا ہے کہ نہ صرف پورا انسان بنانے پر قادر ہے  بلکہ انگلیوں کے پور  بھی ٹھیک ٹھیک  بنانے پر قادر ہے ۔

غرضیکہ  جہاں انسان کی انفرادی  شناخت  کی بات  ہورہی ہے  وہاں انگلیوں کے پور کا بھی تذکرہ ہے ۔

1880 میں فنگر پرنٹ کو شناخت  کے سائنسی  طریقے کا  درجہ حاصل  ہوااور معلوم یہ ہوا کہ دنیا  کے کسی دور انسانوں کے انگلیوں  کے نشانات  ایک جیسے  نہیں یہاں تک کہ جڑواں  انسانوں کے فنگر  پرنٹ  بھی علیحدہ  ہیں۔

آج دنیا  بھر میں مجرموں  کی شناخت کے لیے  فنگر پرنٹ  ہی استعمال کیے جاتے ہیں ۔

جلد میں دردمحسوس کرنے کی حس !

پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ محسوس کرنے اوردرد کی حس کا  تعلق دماغ سے ہے  مگر قرآن  جلد میں  درد محدسوس کرنے کی حس کی وضاحت انتہائی خوبی  سے کرتا ہے ۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿٥٦﴾

جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔

جنین کے مراحل  :۔

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧﴾ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٨﴾

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی

پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی

مندرجہ بالا آیت میں انسانی پیدائش کی   طرف اشارہ ہے ۔

پھر فرمایا ۔

پھر انسان دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا  کیا گیا۔ایک  اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا  جو  پیٹھ اورسینے  کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔”

جنین مراحل میں مردانہ وزنانہ  تولیدی اعضاء گردوں کے پاس ریڑھ کی ہڈی  اور گیارہویں  بارہویں  پسلیوں کے درمیان سے نمودار ہوتا ہے ۔

نطفہ : ( مائع کی معمولی مقدار )

قرآن میں 11 مرتبہ  بیان ہے کہ انسان کو نطفہ سے پیدا کیاگیا ۔

 كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِم مِّنْهُ شَيْئًا ۚ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا ﴿٣٣﴾سورۃ کہف

 دونوں باغ اپنا پھل خوب لائے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور ہم نے ان باغوں کے درمیان نہر جاری کر رکھی تھی۔

 حال ہی میں سائنس نے دریافت  کیا حمل  ٹھہرنے کےلیے تیس لاکھ خلیا ت نطفہ  میں سے صرف ایک ہی کی ضرورت  ہوتی ہے ۔

مخلوط نطفہ : پھر  فرمایا ” ہم انسان کو مخلوط  نطفے  سے پیدا کیا “

یعنی مردوعورت کے  خلیات  باہم ملکر ایک نیا خلیہ  کی ابتداء کا سبب بنتے ہیں۔

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ﴿٦﴾ سورۃ الزمر

ترجمہ :اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے، پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر وماده) اتارے وه تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اسی کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔

جنین کی حفاظت

قرآن میں جن تین تاریک پردوں کا ذکر ہے  وہ یہ ہیں۔

1۔شکم مادر کی اگلی دیوار

2۔رحم مادر کی دیوار

3۔غلاف جنین اوراس کے گردلپٹی جھلی

جنین کے مراحل:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴿٥﴾ سورۃ الحج

لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور بے نقشہ تھا۔ یہ ہم تم پر ظاہر  کر دیتے ہیں، اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وه ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دیئے جاتے ہیں کہ وه ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے۔ تو دیکھتا ہے کہ زمین (بنجر اور) خشک ہے پھر ہم اس پر بارشیں برساتے ہیں تو وه ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے۔

قرآن نے جنین  کی جو مرحلہ  وارتقسیم  بیان فرمائی ہے ۔سائنسی تحقیق  کے بعد  وہ ہو با ہو نہایت عمدہ  ہے ۔

سننے اور دیکھنے کی حسیات

“اور تم کو کان دیے ،آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی “۔

پتہ چلتا ہے کہ  رحم مادر میں جو سب  سے پہلے حس تخلیق پاتی ہے  وہ سننے کی ہے۔ پھر  27 ویں ہفتے تک  دیکھنے کی حس بھی وجود میں آجاتی ہے ۔

قرآن کی بیان کردہ معلومات جدید سائنس کی دریافتوں سے مکمل طور پر  ہم آہنگ  ہیں۔

علم آبیات ۔ (Hydrology  )

 آبی چکر:۔

1580 میں برنارڈ پیلیس نامی  ایک  شخص نے آبی  چکر  کا تصور پیش کیا ۔اس نے بتایا کہ کس طرح سمندر  سے پانی بخارات میں تبدیل ہوکر  بادلوں  کی شکل میں آتاہے اور بادل  خشکی کی طرف بڑھتے ہیں اور بارش برستی  ہے پھر یہ پانی جھیلوں ،ندیوں  اور دریاؤں  کی شکل میں بہتا ہے  اورواپس سمندر میں چلاجاتا ہے ۔جبکہ قرآن  نے 1400 سال پہلے  اس کی وضاحت کرچکا ہے ۔

وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ﴿٩﴾سورۃ الفاطر

اور اللہ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے اس زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کردیتے ہیں۔ اسی طرح دوباره جی اٹھنا (بھی) ہے

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ﴿٢٧﴾ سورۃ الفاطر19

کیا آپ نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگتوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاه۔

9۔علم طبیعیات  (physics)

ایٹم کو توڑا جاسکتا ہے :

مادے  کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم  ہے۔جدید سائنس کے تحت اسے توڑنا  ناممکن ہے اور اس سے چھوٹی کوئی چیز نہیں مگر حال ہی میں دریافت ہوا ہے ایٹم بم سے  چھوٹی چیز وجود پذیر ہے ۔مگرقرآن نے 1400سال پہلے یہ حقیقت  واضح کردی تھی ۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٣﴾سورہ سبا
کفار کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجیئے! کہ مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے کہ وه یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیده نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی چیز کھلی کتاب میں موجود ہے۔

10 سمندری علوم(oceamology)

میٹھا اور کھارا پانی  :۔

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾سورۃ الرحمن

اس نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں

ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے

جدید سائنس نے دریافت  کیا ہے کہ جہاں  دومختلف دریا میٹھے اور کھارے پانی کا ملاپ ہوتا ہے  وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے  جس میں بحر روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے  کے مقام نمایاں طورپر قابل ذکر  ہیں۔

تازہ پانی  کو کھارے  پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے  وہ pyconocline zone ہے  جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی  ہے۔

سمندر کی گہرائیوں کا بیان :۔

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ ﴿٤٠ )  سورۃ النور

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نےڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پےدرپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے، اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔

حال ہی میں سائنسدان  یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے  ہیں کہ سمندر  کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے ۔

سمندر میں 20 سے 30 میٹر  سے زیادہ  بغیر کسی سامان سے لیس ہوئے بغیر  جانا انسان کے بس سے باہر ہے۔200 میٹر سے زیادہ  گہرائی  میں پڑنے  والے آبی  دریاؤں  کا مقابلہ کرنا انسان کے  بس سے باہر  ہے ۔مگر  قرآن نے اس آیت  میں  تہہ درتہہ گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ بڑے وثوق سے دیا ہے ۔

علم ارضیات

زمین کی اوپر تہہ  جس پر ہم رہتے ہیں بہت نازک  ہے ۔علم ارضیات کے ماہرین کے مطابق اس کے  کانپنے  کے مواقع زیادہ ہیں ۔لیکن  پہاڑ اس پرت کو تھامے ہوئے  ہیں ۔

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ﴿٦﴾ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ﴿٧﴾

کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا؟)

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴿٣١﴾

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ وه مخلوق کو ہلا نہ سکے، اور ہم نے اس میں کشاده راہیں بنا دیں تاکہ وه راستہ حاصل کریں۔

علم الافعال(physiology)

خون کی گردش (wilyam Harvey)

دوران خون  کی وضاحت مسلمان  سائنسدان  ابن النفیس نے ولیم ہاروے سے 600 سال پہلے کی  ۔

آنتوں کے اندرایسا کیا ہے جو نظام  ہاضمہ کے ذریعے  انسانی اعضاء کی نشوونما بہتر  بناتا ہے ۔

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ﴿٦٦﴾سورۃ النحل

تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتا پچتا ہے۔

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٢١﴾سورۃ المومنون

تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے۔ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ  آنتوں  میں کیمیکل  reation ہوتا ہے  اورہضم  کردہ غذا ایک پیچیدہ  نظام سے گزر کر  دوران خون میں شامل ہوتی ہے  اور دودھ پیدا کرنے والے غدود بھی شامل ہوتے ہیں۔

قرآن کی سچائی اورحقیقت سائنسی  دریافتوں  پردلالت کرتی ہے  قرآنی آیات ثابت کرتی  ہیں کہ قرآن کلام الٰہی  ہے ۔سات  آسمانوں  سے لے کر  سات زمینوں  تک کا علم کسی انسان کی بس کی بات نہیں اور ان کے درمیان کےرازوں کا علم اگر   کسی کو ہے   توقرآن کے چیلنج کو ثابت کرو اور اس جیسی کوئی کتاب تو بنالاؤ۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پر غور کرنے  اوراس کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں