جان بوجھ کر چھوڑی جانے والی نماز کی بھی قضا لازم ہے

سوال-حضرت، یہ بتائیں کہ قضا نماز صرف اس نماز کی ہوتی ہے جو شرعی وجہ سے چھوٹ جاتی ہے؟ اگر کوئی شخص نماز جان بوجھ کے چھوڑتا ہے تو کیا اس کی قضا نہیں؟ 

ڈاکٹر فیض صاحب کہتے ہیں کہ ایسی نماز جو جان بوجھ کے چھوڑی جائے وہ فوت ہو جاتی ہے، کبھی بھی اس کی قضا نہیں ہے، بس اس کی توبہ کرکے ہی اللہ تعالی سے معافی مانگی جائے۔ 

برائے مہربانی جواب قرآن و حدیث کے حوالے سے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ جزاک اللہ

مدثر احمد

فتویٰ نمبر:266

الجواب بعون الملک الوھاب

علمائے امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز چھوڑنا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہیے۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ!لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل  رحمھم اللہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضا کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاة وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل  نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے؛ مگر قضا سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ اسے نماز کی قضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضا واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ 

جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہٴ قدیم میں جناب داوٴد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں اہلِ حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔اور جن بعض علماء نے نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے پر نماز کی قضا کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطہ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضا کا معاملہ ہی نہیں رہا؛ لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں؛ بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے جن علماء نے فرمایا ہے کہ قصداً نماز چھوڑنے والا کافر ہوجاتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز کا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہے، کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے، اگرچہ قصداً نماز چھوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے؛ مگر وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاة پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے؛ مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماء کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے، جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضا کو واجب قرار دیا جائے؛ تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداوٴد، مسند احمد)

 جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں؛ بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضا کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔

غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہیے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضا کرنی چاہیے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز چھوڑنے کا پیش نہیں آیا؛بلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں چھوٹی ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی چاہیے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضا کرتا رہے۔ علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرے بلکہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کرے۔ یہی چودہ سو سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومفسرین کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علمائےکرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا چھوڑنا ہے۔ لہٰذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضا بھی کرنی چاہیے۔

” من نام عن صلاۃ او نسیھا فلم یذکرھا الا و ھو یصلی مع الامام فلیصل التی ھو فیھا ثم لیقض التی تذکرھا”

نصب الرایہ(2-162)

“لم یقل المتروکات ظنا بالمومن خیرا، اذا لتاخیر بلا عذر کبیرۃ، لا تزول بالقضاء بل بالتوبۃ او الحج”

فتاوی شامی (2-519)

واللہ اعلم بالصواب

اہلیہ محمود الحسن

صفہ آن لائن کورسز

اپنا تبصرہ بھیجیں