جنت میں جانے والے جانور

سوال : کیا دنیا کے بعض جانور جیسے اصحاب کہف کا کتا ،وغیرہ جنت میں داخل ہوں گے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب :

اس سلسلہ میں چارباتوں کی وضاحت کرنا چاہوں گا :

۱۔ دنیا کے کسی جانور کا جنت میں داخل ہونا

۲۔ کسی جانور کا جنت میں سے دنیا میں آنا

۳۔ جانوروں کا قیامت کے دن میدان حشر میں آنا

۴۔ جنت میں جانوروں کا ہونا

پہلی بات : دنیا کے کسی جانور کا جنت میں داخل ہونا

لوگوں میں  یہ مشہور ہے کہ دس جانور جنت میں داخل ہوں گے :

(۱) جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی

(۲) حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی

(۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بچھڑا

(۴) حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا

(۵) حضرت موسی علیہ السلام کی گائے

(۶) حضرت یونس علیہ السلام کی وہیل مچھلی

(۷)  حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا

(۸)  حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی

(۹)  حضرت سلیمان علیہ السلام کا ھدھد 

(۱۰) اصحاب کہف کا کتا

تحقیق :

 علامہ احمدحموی نے (غمز العیون البصائرحاشیۃ الاشباہ والنظائر4/131)میں مفسر قرآن مُقاتل بن سلیمان بلخی( 150ھ)سے بلا سند نقل کیا ہے:

قَالَ مُقَاتِلٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: عَشَرَةٌ مِنْ الْحَیوَانَاتِ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ :

نَاقَةُ مُحَمَّدٍ عَلَیهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ، وَنَاقَةُ صَالِحٍ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَعِجْلُ إبْرَاهِیمَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَكَبْشُ إسْمَاعِیلَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَبَقَرَةُ مُوسَى عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَحُوتُ یونُسَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَحِمَارُ عُزَیرٍ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَنَمْلَةُ سُلَیمَانَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَهُدْهُدُ بِلْقِیسَ، وَكَلْبُ أَهْلِ الْكَهْفِ ، كُلُّهُمْ یحْشَرُونَ . كَذَا فِی “مِشْكَاةِ الْأَنْوَارِ” .

وَذَكَرَ فِی “مِشْكَاةِ الْأَنْوَارِ شَرْحِ شِرْعَةِ الْإِسْلَامِ” : أَنَّهَا كُلُّهَا تَصِیرُ عَلَى صُورَةِ الْكَبْشِ .

  دس جانوروں کے جنت میں داخل ہونے کی جو بات مشہور ہے ، اس کا مصدر یہی مقاتل بن سلیمان کی روایت ہے ۔ لیکن مقاتل بن سلیمان بلخی موثوق بہ نہیں ہے، اور کثرت سے اسرائیلیات پر اعتماد کرتاہے ، اس لئے یہ روایت معتبر نہیں ہے ،یہ عبارت مقاتل بن سلیمان کی مطبوعہ تفسیر میں مجھے نہیں ملی۔

 حضرت خالد بن معدان رحمہ اللہ جو تابعی ہیں ، ان سے دمیری نے (حیوۃ الحیوان 2/ 389) میں بلا سند نقل کیا ہے: لیس فی الجنة من الدوابّ سِوىٰ كلب أهل الكهف، وحِمار العُزیر، وناقةِ صالح ۔کہ جنت میں کوئی جانورنہیں ہوگا،سوائے اصحاب کہف کا کتا، حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا، اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ۔

ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :جانوروں میں سے پانچ جانور جنت میں جائیں گے، ان میں  جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بُراق شمار کی ہے،جبکہ مقاتل کی روایت میں اس کی جگہ اونٹنی مذکور ہے۔ (الاشباہ والنظائرلابن نجیم : ۴/۱۳۱،بحوالہ مستطرف)۔

قلت : والمستطرف للأبشيهي من کتب اللطائف والظرائف،ولم یذکر مستَنده فیما ذکر.

نیزحموی نےکہاکہ:سیوطی نے (دیوان الحیوان ) میں : یعقوب علیہ السلام کا بھیڑیابھی شمارکیاہے ۔ اوربعض حضرات نے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دُلدُل نامی خچر بھی ذکر کیا ہے ۔انتہی مافی الحموی ۔

قلت :وذكر الذئب عجیبٌ ، فإن الذئب لم یأکل یوسف عليه السلام ۔

یہ تقریبا(۱۳)جانوروں کے بارے میں کہا گیا کہ : وہ جنت میں داخل ہوں گے ،مگران سب جانوروں کے سلسلہ میں کوئی معتبرمرفوع روایت ان کے جنت میں داخل ہونے کی نہیں ہے ، چونکہ یہ بات امور غیبیہ میں سے ہے اس لئے بغیر کسی مضبوط دلیل کے اس مضمون کو ثابت نہیں کرسکتے ۔

حدیث :(الشاة من دواب الجنة) :

جنتی جانوروں کے بارے میں سب سے معتبر کوئی روایت اگر ہے ، تو وہ یہی روایت ہے جوبکریوں کے متعلق ہے ، ابن ماجہ (2306)میں اسی طرح مختصر مروی ہے ۔البتہ موطا مالک (2697) اور مسند احمد (9625) میں روایت کے الفاظ یہ ہیں :

أَحْسِنْ إِلَى غَنَمِكَ، وَامْسَحِ الرُّعَامَ عَنْهَا، وَأَطِبْ مُرَاحَهَا، وَصَلِّ فِی نَاحِیتِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ دَوَابِّ الْجَنَّةِ۔(موطا)

ترجمہ : بکریوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، ان کی ناک سے بہنے والی آلائش صاف کرو، ان کے باڑے کو صاف ستھرا رکھو، اور اس کےکسی کونےمیں نماز بھی پڑھ لیا کرو، کیونکہ وہ جنتی جانوروں میں سے ہے۔

امْسَحْ رُعَامَهَا، وَأَطِبْ مُرَاحَهَا، وَصَلِّ فِی جَانِبِ مُرَاحِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ دَوَابِّ الْجَنَّةِ، وَأْنَسْ بِهَا۔(احمد)

تنبیہ : رعامہا ، بعین مہملہ ہو الاصح،ناک سے بہنے والی آلائش ۔وقیل :بالمعجمہ رغامہا ، وہو التراب والغبارفی مراحہااو علی جسدہا ۔

معنى كونها من دواب الجنة :

فیه ستة أقوال :

(1) أخرجت لكم منها ونزلت مِنْهَا ، على أحد الوجوه فی تفسیر (وأنزل لكم من الأنعام ثمانیة أزواج). “التنویر شرح الجامع الصغیر”(3/ 69).

(2) أی أن الجنة فیها شِیاه ، وأصل هَذِه مِنْهَا أو من نوع مَا فِیهَا، بمعنى أن فی الجنة أشباهَها وجنسَها ، وشبیه الشیء یكرَم لأجله .”تأویل مختلف الحدیث” (ص: 357)، “فیض القدیر” (2/ 91)، “شرح الزرقانی على الموطأ” (4/ 496).

(3) أو أن هذه التی فی دار الدنیا تكون فی الآخرة فی الجنة ، تدْخُلهَا بعد الْحَشْر ، أُخرجت إلى الدنیا ثم تعود إلیها. وَهَذَا لَهُ حُكْمُ الرَّفْعِ، فَإِنَّهُ لَا یقَالُ إِلَّا بِتَوْقِیفٍ. “التنویر شرح الجامع الصغیر” (6/ 532)، (7/ 458)، “تنویر الحوالك شرح موطأ مالك” (2/ 226).ورجَّحه ابن حجر كما یفهم من “مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح” (2/ 590) .

(4) یَحْتَمِلُ أَنْ یرِیدَ بِهِ مِنْ دَوَابِّ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، لِمَا رُوِی عَنْ النَّبِی – صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ : السَّكِینَةُ وَالْوَقَارُ فِی أَهْلِ الْغَنَمِ.”المنتقى شرح الموطإ” (7/ 249).

(5) یَعْنِی: هِی مِنْ طَعَامِ أَهْلِ الجَنَّةِ، قالَ اللهُ جَلَّ وَعَزَّ فی أَهْلِ الجَنَّةِ: {وَأَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا یشْتَهُونَ} [الطور: 22] یعْنِی بهِ: لَحْمَ الضَّأنِ.” تفسیر الموطأ للقنازعی” (2/ 758).

(6) قال ابن حزم : أضیفت إلى الجنة لبركتها . وردَّه ابن حجر وغیره ، انظر “مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح” (2/ 590) .

       تیسرے معنی کے اعتبار سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ : دنیا میں موجودہ بکریاں جنت میں ہوگی ۔

دوسری بات  : کسی جانور کا جنت میں سے دنیا میں آنا

     مذکورہ بالا جانوروں میں سےصرف دو کے بارے میں آیا ہے کہ : وہ جنت کے جانوروں میں تھے :

     (۱) حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا،طبری وغیرہ مفسرین نے سورہ صافات کی آیت: ۱۰۷ : ﴿ وَفَدَینَاهُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ ﴾ کی تفسیر میں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ: یہ مینڈھا جنت میں چالیس سال تک چر تا رہا ۔

     (۲) براق کے بارے میں ایک روایت میں ہے کہ : وہ جنت کے جانوروں میں سے ہے ۔ لیکن ابن الجوزی نے موضوعات(1/288) میں روایت پر وضع کا حکم لگایا ہے ، ووافقہ السیوطی (اللآلئ المصنوعہ 1/248)وابن عراق الکنانی (تنزیہ الشریعہ1/324)۔

     مگر جنت میں سے آنے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ :وہ دوبارہ قیامت کے دن جنت میں داخل ہو گا۔

تیسری بات  :  جانوروں کا قیامت کے دن میدان حشر میں آنا

    یہ بات تو  ثابت ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی تمام جانوروں کو زندہ کرکے ، ان کی آپس کی زیادتیوں کا بدلہ ایک دوسرے سے دلواکر، ان کو (کونوا ترابا) کہہ دیں گے ۔

   البتہ بعض روایتوں میں خصوصی طور پر بعض جانوروں کا میدان حشر میں ورود مذکور ہے ، وہ جانور یہ ہیں :

     (۱) حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی

    (۲)  جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عضباء نامی اونٹنی

     (۳)  انبیاء علیہم السلام  کی براق

   الروایات الواردہ بہذا الخصوص متعددہ ، منہا :

   عَنْ سُوَیدِ بْنِ عُمَیرٍ قَالَ : قَالَ رَسُول الله صلی الله علیه وسلم : حَوْضِی أَشْرَبُ مِنْهُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَمَنِ اتَّبَعَنِی مِنَ الأَنْبِیاءِ ، وَیبْعَثُ اللَّهُ نَاقَةَ ثَمُودَ لِصَالِحٍ فَیحْتَلِبُهَا فَیشْرَبُهَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ حَتَّى یوَافَى بِهَا الْمَوْقِفَ وَلَهَا رُغَاءٌ ۔ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : یا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنْتَ یوْمَئِذٍ عَلَى الْعَضْبَاءِ ؟ قَالَ لَا ،ابْنَتِی فَاطِمَةُ عَلَى الْعَضْبَاءِ ، وَأُحْشَرُ أَنَا عَلَى الْبُرَاقِ وَأُخْتَصُّ بِهِ دُونَ الأَنْبِیاءِ ۔ ثُمَّ نَظَرَ إِلَى بِلالٍ فَقَالَ : یحْشَرُ هَذَا عَلَى نَاقَةٍ مِنْ نُوقِ الْجَنَّةِ …الخ

  تخریج الروایہ: الضعفاء الکبیر للعقیلی (3/64)، الموضوعات لابن الجوزی (3/245)، تلخیص كتاب الموضوعات للذهبي (ص: 348)، اللآلىء المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة (2/369)۔

   احکام العلماء علیہا :

  قال العقیلی :عَبْدُ الْكَرِیمِ بْنُ كَیسَانَ مَجْهُولٌ بِالنَّقْلِ، حَدِیثُهُ غَیرُ مَحْفُوظٍ .وقال ابن الجوزی : هَذَا حَدِیث مَوْضُوع لَا أَصْلَ لَهُ.وقال الذهبی: وَهَذَا بَاطِل .وقال السیوطی :مَوْضُوع.

  ولها شواهد من حدیث ابن عباس وبریدة وعلی وأبی هریرة رضی الله عنهم ، وكلها لا یسلَم شیء منها من غَوائل القَدح والضعف والنَّكارة ، وقد أوردها السیوطی فی “اللآلئ المصنوعة”.

چوتھی بات  : جنت میں جانوروں کا پایا جانا

    یہ بات بہت ممکن ہے کہ : اللہ تعالی اہل جنت کے اکرام واعزاز میں ،ان کے اعمال کے صلہ میں ، اور ان کی خواہشات نفس کے مطابق ،جنت ہی میں مختلف قسم کے جانوروں کو پیدا کرے گا ، جو جنتی ہوں گے ،مصداقا لقولہ عزوجل (ولکم فیہا ما تشتہی انفسکم )۔حدیث سے بھی اس کی تایید ہوتی ہے ، ترمذی شریف (2543)کی روایت ہے :

   عن سلیمان بن بریدة عن أبیه أن رجلا سأل النبی صلى الله علیه وسلم فقال : یا رسول الله هل فی الجنة من خیل ؟ قال : إنِ اللهُ أدخلكَ الجنة فلا تشاء أن تُحمل فیها على فرس من یاقوتة حمراء یطیر بك فی الجنة حیث شئت ، قال : وسأله رجل فقال : یا رسول الله هل فی الجنة من إبل ؟ قال : فلم یقل له مثل ما قال لصاحبه ، قال : إن یُدخِلكَ الله الجنة یكن لك فیها ما اشتهتْ نفسُك ولذَّت عینك .

   ترجمہ : حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جنّت میں گھوڑے بھی ہوں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں داخل کیا تو تمہیں یاقوت کا ایک گھوڑا دیا جائے گا،جہاں جانا چاہو گے وہ گھوڑا اڑ کر تمہیں لے جائے گا ۔

     اس کے بعد آپ ﷺ سے ایک دوسرے شخص نے سوال کیا اور کہا کہ: یا رسول اللہ ﷺ کیا جنّت میں اونٹ بھی ہوں گے ؟ حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ: آنحضرت ﷺ نے اس کو وہ جواب نہیں دیا جو آپ ﷺ نے اس کے ساتھی کو دیا تھا (یعنی جس طرح آپ ﷺ نے پہلے شخص کو جواب دیا تھا اس طرح اس شخض کو جواب نہیں دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں داخل کیا اور تم نے اونٹ پر سوار ہونے کی خواہش ظاہر کی تو … الخ۔ بلکہ بطریق کلیہ ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں پہنچادیا تو وہاں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمہارا دل چاہے گا، اور تمہاری آنکھیں پسند کریں گی۔

    حاصل یہ ہے کہ : جنت میں اللہ تعالی مختلف قسم کے جانور ، اہل جنت کی مختلف خواہشات پوری کرتے ہوئے پیدا کریں گے ، لہذا جن روایات میں جنت میں جانوروں کے پائے جانے کا ذکر ہے ، ان کا وجود  اسی معنی پر محمول ہے، لیکن ان کے وہی دنیاوی نام ہونے کا  یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنیا سے جنت کی طرف منتقل کئے گئے ، وہ تو صرف ناموں میں اشتراک ہے ، حقائق واوصاف میں بالکل مختلف ہیں۔

ذیل میں بعض جنتی جانوروں کا مع روایات ذکر کیا جاتاہے :

(۱) اونٹنیاں:

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مہاروالی اونٹنی لے کرحاضر ہوا اور عر ض کیا یہ اللہ کے راستہ میں ہے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تیرے لیے قیامت کے دن سات سواونٹنیاں ہوں گی اور سب کی سب مہار والی ہوں گی۔(مسلم3508)۔

قال النووی : یحتمل أن المراد له أجر سبعمائة ناقة، ویحتمل أن یكون على ظاهره، ویكون له فی الجنة بها سبعمئة كل واحدة منهن مخطومة ، یركبهن حیث شاء للتنزه ،كما جاء فی خیل الجنة ونُجُبها ، وهذا الاحتمال أظهر ، والله أعلم .(شرح مسلم 13/38)۔

(۲) بیل :

یہودی نے کہا اس کے بعد ان کی غذا کیا ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے لئے جنت کا بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت کے اطراف میں چرا کرتا تھا۔(مسلم715من حدیث طویل)۔

(۳) بکریاں :

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بکریاں جنت کے جانور ہیں۔(ابن ماجہ2297)۔

(۴) گھوڑے :

حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جنّت میں گھوڑے بھی ہوں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں داخل کیا تو تمہیں یاقوت کا ایک گھوڑا دیا جائے گا،جہاں جانا چاہو گے وہ گھوڑا اڑ کر تمہیں لے جائے گا ۔( ترمذی 2543)۔

(۵) پرندے :

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿ وَلَحْمِ طَیرٍ مِمَّا یشْتَهُونَ ﴾۔(الواقعۃ:۲۱) ترجمہ: اور پرندوں کاگوشت ہوگا جوان کومرغوب ہوگا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جنت میں اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے ہوں گے، جو درختوں میں چرتے پھریں گے ۔(احمد680)۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں توکسی پرندہ کی طرف دیکھے گا اور اس کی طلب کرے گا تووہ تیرے سامنے روسٹ ہوکرپیش ہوجائے گا۔(مسند البزار 2032)۔

(۶) مچھلی  :

یہودی نے کہا : جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا تحفہ کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :مچھلی کے جگر کا ٹکڑا۔(طرف حدیث فی مسلم715)۔

بہر حال یہ چند جنتی جانوروں کا ذکر روایات میں وارد ہے ، مگر چوتھے نمبر میں وارد جانوروں کی بحث اصل مسئلہ سے خارج ہے ، کیونکہ وہاں تو مخصوص جانوروں کے دخول کا دعوی کیا گیا ہے ، جو ان روایتوں سے  ثابت نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم

مستفاد من عدة مواقع ، وبعض الكتب والفتاوى 

اپنا تبصرہ بھیجیں