جنسی تعلیم کی آڑ میں گھناؤنی سازش !

انصار عباسی

پاکستان کے ایک نامی گرامی اسلامی سکالر نے مجھے فون کیا اور میرا ڈاکٹر سلیم بشیر سے تعارف کروایا جنہوں نے مجھے فون پر بتایا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہمارے تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کو متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے لیے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے توسط سے یہاں تیزی سے کام جاری ہے۔ اس کام میں کچھ NGOs کافی سرگرم ہیں جبکہ حکومت پنجاب نے بھی اس سلسلہ میں ایک پالیسی جاری کر دی ہے جبکہ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں بھی یہ تعلیم بچوں کو دی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے میں نے گزارش کی کہ برائے مہربانی مجھے کوئی دستاویزی ثبوت بھیجیں تا کہ میں دیکھ سکوں کہ کس حد تک اُن کے خدشات درست ہیں۔ جب مجھے ان کی دستاویزات موصول ہوئیں تو انہیں پڑھ کر محسوس ہوا کہ واقعی دال میں تو بہت کچھ کالا ہے ۔

اخباری تراشوں سے معلوم ہوا کہ پاکستانی معاشرہ کو فری سیکس سوسائٹی بنانے کا کام تو کب کا شروع بھی ہو چکا۔ ایک خبر کے مطابقLife Skilled Based Education کے نام پر سندھ ٹکسٹ بک بورڈ کے منظور شدنصاب میں چھٹی سے دسویں تک کے بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کا کسی سے بھی (جاننے والا یا کوئی اجنبی) جنسی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ان معصوم بچوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے:During sex with an affected person or someone you don’t know, a condom should be used.”ایک اور خبر کے مطابق کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے Bargad نامی ایک NGO کو طلب کیا کیوں کہ اس تنظیم کی طرف سے گجرانوالہ کے سرکاری اسکولوں میں حکومتی منظوری کے بعد تقسیم کہ گئی جنسی کورس کی کتابوں میں بچیوں کو تعلیم دی جا رہی تھی کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ کیسے دوستی کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مہیا کیے گئے مواد سے معلوم ہوا کہ Sexual and Reproductive Health and Rights (SRHR) کے نام اقوام متحدہ نے جنسی حقوق کی تعریف کرتے ہوے جن حقوق کی بات کی اُن حقوق میں جنسی جوڑے چننے میں آزادی کا حق، جنسی طور پر متحرک ہونے یا نہ ہونے کا حق، باہمی رضامندی سے جنسی تعلق رکھنے کا حق اور جنسیت کے حوالے سے معلومات کو پڑھانے، حاصل کرنے اور جاننے کا حق وغیرہ شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے SRHR کی تعریف اور وضاحت جس کتابچے میں کی، اس کے سرورق پر دو ہم جنس پرست لڑکوں کی تصویر آویزاں ہے۔حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کی گئی Adolescent Strategy and Strategic Plan 2013-2017 میں ویسے تو کوشش کی گئی کہ متنازعہ موضوعات کو پالیسی میں نہ لکھا جائے مگر اس پالیسی میں SRHR کا واضح ذکر موجود ہے جس کے لیے NGOs کے لازمی کردار کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق پاکستان میں بہت سی NGO’s اس ایجنڈے پر کارفرما ہیں اور 2009 سے مسلسل مختلف نجی اسکولوں میں وقتا فوقتا مختلف کتب میں اسکو پڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے مطابق حال میں ایک NGO نے اس ایجنڈے کو اور بھی گھناؤنا رنگ اسوقت دیا جب انھوں نے مختلف مکاتِب فکر کے علماء کرام کو دھوکے سے اپنے ساتھ ملا لیا۔ ان علماء سے فقہی نوعیت کے چند سوال پوچھ کر کتابچے مرتب کیے گئے جن میں جنسی و تولیدی حقوق کے متعلق سرے سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا مگر ان کتابچوں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس ایجنڈے پر ان کے ساتھ متفق ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ ساری سازش ایک ریڈیو پروگرام میں بے نقاب ہوئی http://radiomines.pk/audio/ mulaqaat-with -dr-ghalib -ata- dr- saleem-raghib- naeemi- umer- aftab-2/) ڈاکٹر صاحب مجھے اس سارے معاملہ میں بہت مخلص اور فکر مند نظر آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی حکومت کی تین بنیادی ترجیحات ہوا کرتی ہیں، نمبر 1؁ اپنے نظریے کو عوام پر نافذ کرنا، نمبر 2؁ اپنے نظریے کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا، نمبر 3؁ اپنے نظریے کو ساری دنیا میں پھیلانا اور منوانا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ میں اسلامی نظریاتی ریاست قائم کی تو وہاں اسلامی عقیدے کی بنیاد پر شریعت کو نافذ کیا گیا، اندرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے حدُود اللہ کے عدالتی نظام کو نافذ کیا گیا، بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے جہاد اور امت کو نظریاتی طور پر مضبوط کیا گیا نیز پھیلائو کیلئے دوسری ریاستوں کے حکمرانوں کو و فود اور خطوط بھیجے، تبلیغ اور اقدامی جہاد کے احکام کو اپنایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے حکمران اور حکومتیں اپنی ترجیحات بدل چکی ہیں، مگر کفر آج انہی تین ترجیحات کو اپنائے ہوئے ہر روز اسلام اور امّتِ مسلِمہ کے لئے نئے نئے چیلنجز پیدا کرتا رہتا ہے۔

کفر آج عیسائیت اور صہیونیت کی روایتی یلغار سے ہٹ کر ایک سرمایہ دارانہ عقیدے پر کھڑا ہے جسکی بنیاد خدا سے زندگی کے تمام نظاموں میں آزادی ہے۔ ان آزادیوں کو ایک خوبصورت نام ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ کے نام سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ انسان کے حقوق و فرائض کا تعیُن اسلام میں تو اللہ رب العزت کرتے ہیں، مگر ان’’ بنیادی انسانی حقوق‘‘ کا تعین اپنے عزائم اور مقاصد کو مدِنظر رکھ کر اپنے نظرئیے کے پھیلاؤ کے لئے سرمایہ دارانہ نظریئے کے حاملوں نے خود کیا ، ان حقوق میں عقیدے کی آزادی …اظہارِ رائے کی آزادی…ملکیت کی آزادی…اور شخصی آزادی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ آج سیکولر ریاستوں میں بالخصوص امریکہ اور یورپ جیسی سرمایہ دارانہ ریاستوں میں عقیدے کی آزادی کے نام پر اسلام کی مرتد کی سزا کو ظالمانہ قرار دیا گیا، نیز عقیدے کی اہمیت کو ایک کھلونے سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا، جبکہ ملکیت کی آزادی کے نام پر تمام وسائل کو پرائیویٹائز کرنے کیساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے لوگوں کو سرمایہ دار کی معاشی من مانیوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، اظہارِ رائے کی آزادی ہمیشہ انبیائے کرام ؑ اور مذاہب کے مذاق اڑانے لے لئے بیدریغ استعمال کیجاتی ہے اور ساتھ ہی شخصی آزادی کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرہ جس کو Free Sex Society بھی کہا جاتا ہے، قائم کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ذی شعور آدمی یہ بات باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ایسے حقوق کے نتیجے میں پاکستان بھی ایک فری سیکس سوسائٹی بن جائیگا، اس کام کے راستے میں ممکنہ رکاوٹوں کو پہلے ہی حکومت NGO’s اور بین الاقوامی دباؤ میں آکر ختم کر چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تجویز دی کہ ایک ایسا تعلیمی نظام جو ایک خاص نظریئے کے پرچار کے طور پر لایا جا رہا ہو اس سے بچاؤ کے لئے ہمیں اپنے (اسلامی) نظریاتی تعلیمی نظام کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے جس کے ذریعے جدید سائنسی علوم کیساتھ ساتھ شریعت کی تعلیم ، محرم اور غیر محرم کے احکام، پردے کے احکام، اسلام کے فحاشی اور بدکاری سے برأت اور کراہت کے احکام کا پرچار نیز ایسی تعلیم جو ایک بچے کو حقیقی اسلامی شخصیت بنائے، جسکا اسلام کا شعور صرف اخلاقیات اور عبادات کی حد تک ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، عدالتی اور خارجہ پالیسیوں میں بھی اسلام کے نفاذ اور دنیا میں اسلامی نظریے کی بالادستی کو یقینی بنائے۔اس کے لیے حکومتوں اور حکمرانوں کا کردار بہت اہم ہے۔

بشکریہ روزنامہ”جنگ”

اپنا تبصرہ بھیجیں