خلاصہ سورۃ انعام

بصائر وعبر  :

1)باقی رہنے والے  اور نفع مند  صرف نیک اعمال  ہیں۔ باقی   سب کھیل  تماشہ ہے ۔ ( آیت  :32)  

2) حق  اور دین  کی دعوت پہنچانے   والوں  کو ہر   دور میں ظلم  وجبر کا سامنا  کرنا پڑا۔لیکن انہوں نے  صبر ودعا  سے کام لیا  اور بالآخر  وہی غالب  ہوئے  ۔ ( آیت  :34)  

3۔ ہدایت  کے لیے طلب  اور غور وفکر  شرط  ہے۔ ہدایت  انہیں کو ملتی ہے  جو پیغام  حق کو  دل  کے کانوں  سے سنتے ہیں ۔ (آیت  :36)  

4۔فقر  وتنگدستی ،  بیماری  اور آفتوں  کا نزول  بعض  اوقات  بندے  پر اللہ تعالیٰ  اس لیے  بھی کرتے ہیں  تاکہ بندہ  اللہ کی طرف متوجہ  ہو۔  چنانچہ  بہت  سے لوگوں  کو فقر وفاقہ  اور بیماریوں  سے انسان  اللہ پاک  کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ وہ کفر  گناہ  کے راستے  پر مزید اڑجائے تو یہ بڑے خطرے  کی بات ہے ۔ اس طرح  کی کیفیت  کے بعد اللہ تعالیٰ  بطور  استدراج  اس کو رزق کی فراوانی  اور سامان  عیش وعشرت  عطا فرما  دیتے ہیں ۔ا نسان سمجھتا ہے  کہ میں ٹھیک جارہا ہوں ۔ وہ ان نعمتوں  کو لافانی  سمجھتاہے  کہ اچانک اللہ تعالیٰ  ایسی پکڑ فرماتے ہیں  کہ وہ روڈ  پر آجاتا ہے ۔ (آیت  42۔45 )

 ( آیت  :42۔45 )

5۔دعوت دین کے آداب  یہ ہیں :

1۔ایمان  واطاعت  کرنے والوں  کو بشارت  وترغیب  دی جائے ۔ اس راہ  کے فضائل  انہیں بتائے جائیں ۔

2۔کفر وگناہ  کرنے والوں  کو مختلف  طریقوں سے  ڈرایاجائے ۔ ان کے اعتراضات  اور تحفظات  کو دور کیاجائے ۔ ( آیت  49،51،58)  

3۔  لوگوں  کے سامنے  داعی  اپنی حقیقت  آشکار کردے ۔ اپنی ذات سے متعلق  غلط فہمیوں  کا ازالہ کرے  ۔( آیت  :50)  

4۔مالداری اور ظاہری  وجاہت  وسیادت  کی بجائے اخلاص واتباع  کو معیار  بنائے  رکھے ۔ مخلص ومتبع  کو قریب  رکھے  اور ہٹ دھرم اور ضد ی سے خائف  نہ ہو۔ ( آیت  :52،53)  

5۔مخلص  ایمان  والوں  کی حوصلہ افزائی  کرنی چاہیے ! انہیں  سلامتی،رحمت ، قبول توبہ  کی بشارت  دینی چاہیے  ۔(آیت  :54)  

6۔ایمان  والوں  کے عقائد  مضبوط  کیے جائیں  اور انہیں ہر طرح  کے کفر وشرک  سے باز رکھاجائے  ! ( آیت :56)

7۔ باطل سے مباحثے   اور مناظرے  کی بھی نوبت  آسکتی ہے ۔ اس کی  تیاری  رہنی چاہیے  ! ( آیت  :80)

8۔باطل  کو استدلال  کی قوت  سے سمجھایاجائے ۔ عقلی دلائل  کے ساتھ ساتھ  مشاہداتی  دلائل  سے بھی انہیں قائل  کیاجائے ۔ (آیت 76۔79)

9۔ تبلیغ کے کام پر اجرت  کا مطالبہ نہیں  کرنا چاہیے ! ( آیت  :90)  

6۔ تین طرح  کے فرشتے  انسانوں سے متعلق ہیں  :

1۔اعمال کے محافظ فرشتے یعنی کراماً کاتبین  

2۔انسانی جان کے محافظ فرشتے

3۔جان نکالنے  والے فرشتے  ( آیت  :61)

7۔شیاطین  اور شریر جنات انسانوں کو تنگ  کرسکتے  اور انہیں راہ بھٹکاسکتے  ہیں۔ (آیت 71)

8۔انبیاء ،اولیاء  اور مشایخ کی اولادوں   میں  رشد وہدایت  کی ایک  خاص شان ہوتی  ہے جو دوسروں  میں نہیں ہوتی  بشرطیکہ  کوئی معارض  نہ  ہو ۔ ( آیت  :84،87)  

9۔اللہ تعالٰی  کا  کوئی  ایسا محبوب  بالذات  نہیں کہ  اس پر  کسی  حال میں مواخذہ  نہ ہو۔  اس کے  قانون  سے کوئی بالاتر  نہیں۔ آیت  :88)

10۔کافروں کو موت  کے وقت   سخت روحانی  کرب  واذیت  کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ( یہ سختی  ان  پر بطور  عذاب ہوتی ہے ۔ مسلمانوں  کے لیے  موت  کی سختی  بعض اوقات  باعث رحمت  ہوتی  ہے ) ( آیت   :93)  

11۔اللہ  تعالٰی  نے ہدایت  کے لیے  دلائل  و علامات   مقرر کردی ہیں۔ اب ان کو دیکھ  دیکھ کر   منزل  تک  پہنچنا انسان  کے ذمہ ہے ۔ایک داعی دلائل  وعلامات  کا ذکر کر کے انسان  کو نزل تک پہنچنے کی ترغیب  دیتا ہے ۔ داعی  کا  کام اتنا  ہی ہے ۔ ہاتھ پکڑ   کر منزل  تک چھوڑ  آنا اس کے ذمہ  نہیں ۔ ( آیت  : 108)  

13۔ مدعی کا  کام  اپنے  دعویٰ پر گواہ پیش کرناہوتا ہے ۔ اگر وہ گواہ  پیش کردے  تو مدعا علیہ  ان  گواہوں پر  جرح  تو کرسکتا ہے ۔ جس کا جواب  مدعی کے ذمہ  ہوگا لیکن  یہ نہیں  کہہ سکتا  کہ ان قائم  کردہ گواہوں  کے علاوہ مزید  فلاں فلاں  گواہ بھی  پیش کیے  جائیں ! عدالت  ایسی فضول  فرمائشوں   کی سماعت نہیں  کرتی ۔اسی طرح  نبی کریم ﷺ نے جب دعوائے نبوت  کیا تو اس کے لیے عقلی ،  الزامی اور معجزات  غرض  ہر طرح کے دلائل  قائم  فرمائے  ۔ اغیار  ان دلائل  پر رد جرح  کرسکتے  ہیں (  جس کا جواب علمائے  اسلام  نیابتاً  ہر دور میں  دیتے ہیں  ) لیکن  من مانے  دلائل کی فرمائش  نہیں کرسکتے ۔ ان فرمائشوں  پرعمل  اس لیے نہیں کیاجاتا   کہ اگر ان کی فرمائشوں  پر عمل  ہو بھی جائے  تب بھی ایسے  لوگ عموماً ایمان لانے  والے نہیں ہوتے  ( آیت  :109، 111)

اپنا تبصرہ بھیجیں