کیا جمعہ کا حج ستر 70حج کے برابر ہوتاہے؟

سوال : ایک روایت فقہ وشروحاتِ حدیث کی کتابوں میں ذکر کی جاتی ہے کہ : جمعہ کا حج فضیلت کے اعتبار سے ستر حج کے برابر ہے، تو کیا ایسی کوئی حدیث ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب :

جی ہاں ایک روایت علامہ ابن الاثیر نے (جامع الاصول 9/ 264)میں امام رَزِین بن معاویہ عَبدری (متوفی 535 ھ )کے حوالے سے ذکر کی ہے، وہ یہ ہے :

           6867- (ط) طلحة بن عُبيد الله بن كَرِيز: أن رسول الله ﷺ قال: ﴿ أفضلُ الأيام يوم عرفة وافقَ يومَ جمعة ، وهو أفضل من سبعين حجة في غير جُمعة ، وأفضل الدعاء دعاءُ يوم عرفة، وأفضل ماقلتُ أنا والنبيون من قبلي:لا إله إلا الله وحده لا شريك له ﴾ . قال ابن الأثير : أخرج «الموطأ» من قوله «أفضل …» والحديثَ بطوله ذكره رزين.

          تجزیۂ حديث :

          اس حدیث كے دوجزء ہیں :

۱۔ ﴿ أفضل الأيام يوم عرفة وافَقَ يوم جمعة وهو أفضلُ من سبعين حجةً في غير جمعة ﴾    .

۲۔ ﴿ أفضل الدعاء دعاء يوم عرفة ، وأفضل ما قلت أنا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له ﴾.

          تخریج حدیث :

          حدیث کا دوسراجزء ﴿ أفضل الدعاء … ﴾ یا ﴿ خير الدعاء دعاء يوم عرفة … ﴾ یہ تومتعدداسانید سے مرفوعا ومرسلامنقول ہے :

مرفوعا بمعناہ حضرت عبد اللہ بن عمروؓسے [ترمذی 3585] میں ،اورحضرت علی ؓسے [طبرانی کتاب الدعاء 874] میں،اور حضرت ابن عمرؓسے [طبرانی کتاب الدعاء 875] میں ،اورحضرت ابوہریرہ ؓسے (شعب الایمان 3778)میں ہے ۔

جبکہ مرسل روایت امام مالک کی (موطأ) کی متعدد روایات میں مندرجہ ذیل ایک ہی سند سے وارد ہے :

          ﴿ مالك، عن زياد بن أبي زياد، عن طلحة بن عُبيد الله بن كَرِيز، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أفضل الدعاء دعاء يوم عرفة، وأفضل ما قلت أنا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له ﴾۔طلحہ بن عبید اللہ بن کریز تابعی ہیں ، مشہور صحابی نہیں ہیں کما ظن علی القاری فی ’’الحظ الاوفر‘‘ ، اس لئے یہ روایت منقطع ہے ۔

            دیکھئے :

موطأ مالك روایۃ  یحیی اللیثی (رقم 246,32)۔

موطأ مالك روایۃ  ابى مصعب الزہرى (رقم621)۔

موطأ مالك روایۃ  یحیی بن عبداللہ بن بكیر (سنن البیہقی 8391)۔

موطأ مالك روایۃ  عبد اللہ القعنبی (رقم362)۔

البتہ روایت کا پہلاجزء (جومقصودبالبحث ہے) یعنی : ﴿ أفضل الأيام يوم عرفة وافَقَ يوم جمعة وهو أفضلُ من سبعين حجةً في غير جمعة﴾ اس كوفقط رزین بن معاویہ نے (تجرید الصحاح)میںموطأ مالک کی علامت لگاکرروایت کے شروع میں ذكرکیاہے، جیساكہ صاحبِ (جامع الاصول )نے تصریح  کی ہے،اور رزین کی(تجرید الصحاح نسخہ کوبریلی ترکی/ص51) میں بھی اسی طرح ہے۔

مگررزین کی مذکورہزیادتی(موطأ مالک)کےنسخوں میں وارد نہیں ہے ، جیساکہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری8/271) میں کہا:

وَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ رَزِينٌ فِي “جَامِعِهِ” مَرْفُوعًا : ﴿ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ عَرَفَةَ وَافَقَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ حَجَّةٍ فِي غَيْرِهَا ﴾ فَهُوَ حَدِيثٌ لَا أَعْرِفُ حَالَهُ ، لِأَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ صَحَابِيَّهُ وَلَا مَنْ أَخْرَجَهُ ، بَلْ أَدْرَجَهُ فِي حَدِيثِ” الْمُوَطَّأِ “الَّذِي ذَكَرَهُ مُرْسَلًا عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيدِ اللَّهِ بْنِ كَرِيْزٍ، وَلَيْسَتِ الزِّيَادَةُ الْمَذْكُورَةُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمُوَطَّآتِ . فَإِنْ كَانَ لَهُ أَصْلٌ احْتَمَلَ أَنْ يُرَادَ بِالسَّبْعِينَ التَّحْدِيدُ أَوِ الْمُبَالَغَةُ ، وَعَلَى كُلٍّ مِنْهُمَا فَثَبَتَتِ المَزِيةُ بذلك ، وَالله أعلم .

ترجمہ : حافظ ابن حجر نے رزین کی زیادتی پر تعاقب كرتے ہوئے کہا کہ:اس حدیث کا حال (صحت وضعف کے اعتبار سے) مجھےمعلوم نہیں ہے، اس لئے کہ رزین نےنہ اس كےصحابی راوى كاذكرکیاہے، اورنہ اس کوكسی تخریج  کرنےوالے کی طرف منسوب کیا ہے، بلكہ رزین نے اسے موطأ كى اس حدیث میں درج كردیا ہے(یعنى اصل مرسل روایت سے ملا دیا)، اوریہ زیادتى موطأ کی کسی بھی روایت میں مذكورنہیں ہے، تاہم اس كى كوئى اصل اگرہو تو یہ احتمال ہے كہ ”سبعين“سے مراد تحدید ہو(یعنی متعینہ مقدار70 مرادہو)یا پھر اس سے مبالغہ مقصودہو(جیساكہ اصطلاحِ عرب میں سبعہ  كا لفظ بیانِ تكثیر كے لئے استعمال ہوتا ہے)، ان دونوں میں سے جوبھی مراد ہوبہرحال اس سے فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

حافظ کے مذکورہ بالا تبصرہ میں تین باتیں محل نظر ہیں  :

۱۔ (لَمْ يَذْكُرْ صَحَابِيَّهُ) یہ حدیث موطا مالک میں بالاتفاق مرسل ہے ، قال ابن عبد البرفی”التمہید” (6/ 39): لَا خِلَافَ عَنْ مَالِكٍ فِي إِرْسَالِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا رَأَيْتَ ۔ تو جب روایت مرسل ہی ہے تو صحابی کا مذکور ہونا ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ (وَلَا مَنْ أَخْرَجَهُ ، بَلْ أَدْرَجَهُ فِي حَدِيثِ” الْمُوَطَّأِ “)رزین نے روایت پر (ط) کی علامت لگائی ہے ، یعنی امام مالک نے اس کی تخریج کی ہے ،بحسب ظاہر قولہ ، تو مخرج(بتشدید الراء) بھی مذکور ہے۔

۳۔ (وَلَيْسَتِ الزِّيَادَةُ الْمَذْكُورَةُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمُوَطَّآتِ) امام  مالک سے (موطا) کی روایت کرنے والے سو سے زائد راوی ہیں ، ان میں سے سولہ تلامذہ کی روایتیں (نسخے)مشہور ہیں ، اورہر ایک نسخہ کمی زیادتی کے اعتبار سے دوسرے سے مختلف ہے ، جس کی تفصیل امام دارقطنی وغیرہ نے (اختلاف الموطآت ) میں، اور ابن عبد البر نے (تجرید التمہید ) میں  ذکر کی ہے ۔

رزین نے (تجرید الصحاح )کے مقدمہ میں اختلاف الموطآت کے بارے میں ایک اہم بات ذکر کی ہے ، قال رزین (تجرید الصحاح /ص6) : ” واعلم أني أدخلتُ من اختلاف نُسَخ الموطأ لابن شاهين والدارقطني ومِن رواية مَعنٍ للموطأ أحاديثَ تفرَّدت بها بعضُ النُّسَخ عن بعض، وكلُّها صحيحة” .

فرمایاکہ:میں نےموطا کی بعض روایتوں کےجو زائد الفاظ ذکر کئے ہیں ، ان کے تین مآخذ ہیں :

۱۔ اختلاف الموطآت، ابن شاہین کی ۔

۲۔ اختلاف الموطآت، دارقطنی کی۔

۳۔موطا بروایت معن بن عیسی ۔

جب رزین نے ’’موطا مالک‘‘ کے نسخوں میں وارد الفاظِ زائدہ کے مآخذ کی تصریح کردی ہے ، تو اُن کے بارے میں (لا اصل لہا ) کہنا [کما قال ابن القیم]یا یہ تصور کرنا کہ رزین نے اپنی طرف سے بغیر کسی مصدر پر اعتماد کرتے ہوئے بڑھائے ہیں ، میں سمجھتاہوں کہ یہ رزین کے حق میں نا انصافی ہے ، لہذا زیرِ بحث زیادتی بھی موطا کے کسی نسخہ میں ضرور موجود ہوگی ، مذکورہ مآخذ ثلاثہ میں سے اِس وقت صرف (اختلاف الموطآت للدارقطنی ) مطبوع ہے ، البتہ ابن شاہین کی کتاب ، اسی طرح روایتِ معن بن عیسی موجود نہیں ہے ،تو ان دونوں میں سے کسی ایک میں ہونا عین ممکن ہے ، اس لئے مذکورہ زیادتی کا بالکلیہ انکار کرنا درست نہیں ہے ۔

حافظ ابن حجر نے اخیر میں جو بات ارشاد فرمائی ،اس میں بہت محتاط عبارت استعمال کی ہے ، قال : (فَإِنْ كَانَ لَهُ أَصْلٌ احْتَمَلَ أَنْ يُرَادَ بِالسَّبْعِينَ التَّحْدِيدُ أَوِ الْمُبَالَغَةُ ، وَعَلَى كُلٍّ مِنْهُمَا فَثَبَتَتِ المزية بذلك)۔یعنی اگرچہ رزین کی مدرَجہ زائد روایت(موطا) کےموجودہ نسخوں میں نہیں ملی ، مگر وجود کا امکان ہے ۔

رہ گئی بات کہ :کیاجمعہ کے حج کی مذکورہ فضیلت کے متعلق اور کوئی روایت ہے ؟

الجواب:نہیں ، اس باب میں اور کوئی روایت منقول نہیں ہے ، ہاں بعض روایتوں میں  جمعہ کے دن اعمال کے اجر وثواب میں اضافت کا ذکر ہے ،مثلاحضرت شیخ الحدیث ؒ نے (اوجز المسالک8/614)میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے ، فرمایا : (إن الله عز وجل خلق الأيام ،واختار منها يوم الجمعة،فكل عمل يعمله الإنسان يوم الجمعة يكتب له بسبعين حسنة). مگر یہ روایت ’’معجم الاوسط7895‘‘طبرانی میں مختصر ہے :(تُضاعَف الحسناتُ یوم الجمعة)اور سند میں حامد بن آدم غیر معتبر راوی ہے۔

ایک اور روایت ملا علی قاری نے ’’الحظ الاوفرفی الحج الاکبر‘‘میں ذکر کی ہے ، قال القاری :(وأخرج حُميد بن زَنجوية في “فضائل الأعمال” عن المسيَّب بن رافع قال :مَن عمل يوم الجمعة عملا ضُعِّف بعشرة أمثاله في سائر الأيام)۔المسیب بن رافع تابعی ہیں ، لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

۱۔ جمعہ کے دن کی حج کے متعلق صرف یہی ایک مرسل روایت ہے ، جس کا مصدرِ واحد ’’تجرید الصحاح‘‘رزین بن معاویہ کی ہے ۔

۲۔ اصل مرسل روایت پر رزین بن معاویہ کی جو  زیادتی ہے ، اگر وہ اسی سند سے وارد ہے یعنی (مالك، عن زياد بن أبي زياد، عن طلحة بن عُبيد الله بن كَرِيز) تب تو اس کا اعتبار کیا جاسکتاہے ، اور استدلال کرنا بھی درست ہوگا ، لیکن اگر یہ زیادتی ثابت نہیں ہے ، تو اس کی نسبت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا مناسب نہیں ہے ۔

۳۔   عموم دلائل وشواہد سے جمعہ کے حج کی زائد فضیلت ثابت ہوتی ہے ، کما افاض فیہ ابن القیم ،اور علماء كے یہاں یہ قاعدہ بھی مسلّم ہے كہ( ثواب الأعمال يتضاعف بتفاضل الأزمنۃ والأمكنۃ ) كہ زمان ومكان كى فضیلت كے سبب اعمال كے اجر میں بھى مضاعفت ہوتى ہے، اور نصوص سے یہ بات ثابت ہے كہ یوم الجمعہ تمام دنوں میں سب سے افضل دن ہے، اور یوم عرفہ بھى ایك معظم دن ہے،لیکن یہ ایک الگ بحث ہے، واللہ اعلم ۔

جمعه : المولوي محمد عبيد بن عبد الباسط منيار .

ورتبه وتممه العبد الفقير محمد طلحة بن بلال أحمد منيار

اپنا تبصرہ بھیجیں