کیا کائنات ہمیشہ سے موجود رہی ہے

محمداسامہ
(ایک مشہور ملحدانہ خیال کا رد)

آپ سب نے یقیناًکئی  بار چائے پی ہو گی اور یہ بھی دیکھا ہو گا کہ چائے جب پکائی جاتی ہے تو سخت گرم ہوتی ہے اور جب اسے کچھ دیر کپ میں ڈال کر رکھا جاتا ہے تو وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ دراصل یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ چائے کی گرمائش اس کے ارد گرد موجود ہوا میں چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہوا گرم اور چائے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ ہوا چونکہ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کا گرم ہونا ہم محسوس نہیں کر پاتے۔ لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ اگر چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے تو یہ ٹھنڈا ہونے کا عمل رک کیوں جاتا ہے؟ چائے ٹھنڈی ہوتے ہوتے جم کر برف کیوں نہیں بن جاتی؟

اس کا جواب تھرمو ڈائینیمکس کا قانون ہے کہ، “گرمائش ہمیشہ ایک گرم جسم سے ٹھنڈے جسم کی طرف سفر کرتی ہے اور اس وقت تک سفر کرتی رہتی ہے جب تک دونوں جسموں کی حرارت برابر نہیں ہو جاتی۔””
اور یہی ٹھنڈے ہونے کے عمل کے رکنے کی وجہ ہے۔ جب چائے کا درجہِ حرارت اپنے ارد گرد موجود ہوا کے درجہِ حرارت کے برابر ہو جاتا ہے تو اس میں سے مزید گرمائش ہوا میں منتقل ہونا بندہو جاتی ہے۔

یہ سائنسی قانون ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ چاہے وہ چائے کا ایک کپ ہو یا پھر کائنات میں موجود ستارے۔ جی ہاں! ہمارا سورج بھی اس کہکشاں میں ویسے ہی پڑا ہوا ہے جیسے ایک ٹیبل پر چائے کا کپ۔ کیونکہ چائے کے کپ کی طرح سورج بھی اپنی گرمائش ماحول میں منتقل کر رہا ہے جسے ہم زمین پر موصول کرتے ہیں کیونکہ ہم سورج کے اردگرد کے ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ اِس وقت سورج شدید گرم ہے اور ارد گرد موجود سیارے انتہائ سرد ہیں۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب چائے کے کپ کی طرح سورج کا ٹھنڈا ہونے کا عمل بھی رک جائے گا۔یہ وہ وقت ہو گا جب ہماری زمین اور دیگر سیاروں کا درجہِ حرارت اتنا بڑھ جائے گا اور سورج کا درجہِ حرارت اتنا کم ہو جائے گا کہ دونوں کے درجہِ حرارت ایک برابر مقدار پر آ جائیں گے۔ اِس وقت کو “ہیٹ ڈیتھ” یعنی “زمین کی حرارت سے موت” کہا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اگر آپ ٹھنڈے پانی میں اپنا ہاتھ ڈال دیں تو کچھ دیر میں وہ ٹھنڈا پانی گرم ہو جاتا ہے اور آپ کا گرم ہاتھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یعنی دونوں کا درجہِ حرارت برابر ہو جاتا ہے۔

البتہ آپ لوگ ٹینشن نہ لیں ۔ہماری زمین کے ساتھ ایسا ہونے میں ہزاروں سال لگیں گے اور پوری کائنات کے ساتھ ایسا ہونے میں کتنا وقت لگے گا وہ بتانا شائد کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ویسے بھی تب تک ہم لوگ شائدایک دوسرے کو قتل کر کے ختم ہو چکے ہوں  اور آج کل قیامت کی نشانیاں بھی بہت نظر آ رہی ہیں۔ ہیٹ ڈیتھ سے پہلے پہلے شائد قیامت آ جائے۔ نہ آئی تو شاہد مسعود صاحب سے بات کر لیں۔ وہ کچھ نہ کچھ کر کے قیامت لے آئیں گے۔

اب آتے ہیں تخلیقِ کائنات کی طرف۔ فرض کریں کہ آپ کو کوئی کہے کہ میں نے دو دن پہلے چائے بنائ تھی اور وہ ابھی تک گرم ہے۔ تو کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے؟ نہیں نا۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ چائے کا کپ دو دن گزرنے کے بعد بھی اپنی گرمائش نکالتا رہے۔ چائے کی ٹھنڈک کا عمل رکنے میں زیادہ سے زیادہ اور گرم سے گرم جگہ پر ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

اگر آپ دو دن تک چائے کے گرم رہنے کو تسلیم نہیں کر سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہو اور ابھی تک ستارے گرم ہوں اور ان کے ٹھنڈے ہونے کا عمل رکا نہ ہو۔ ایسا بالکل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کائنات ہمیشہ سے موجود ہوتی تو اس وقت ساری کائنات ‘ہیٹ ڈیتھ’ کی حالت میں ہوتی۔ تمام کا کائنات کا درجہِ حرارت برابر ہوتا۔ مطلب ہمیشہ سے موجود کائنات ہمیشہ سے یکساں درجہ حرارت رکھتی ۔ چائے کے کپ کی طرح تمام ستارے ٹھنڈے ہو چکے ہوتے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس وقت کائنات میں ان گنت ستارے موجود ہیں اور سب کے سب دہک رہے ہیں اور دور دور تک اپنی حرارت پہنچا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ان ستاروں سے دور دور پتھروں کے ٹکڑے ہیں جہاں بے پناہ ٹھنڈک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کائنات میں مختلف جگہوں پر مختلف درجہ حرارت ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی بلکہ ایک خاص وقت پر وجود میں آئی تھی۔

کارل سیگان برٹرنڈ رسل اور ڈینئیل ڈینیٹ جیسے کئ لوگ گزرے ہیں جو خدا کے وجود سے منہ چھپانے کے لیے اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتے رہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہے، بلکہ پیدا کی گئ ہے۔ کئ لوگ آج بھی کائنات کو ایک خالق کی تخلیق ماننے سے بھاگنے کے لیے کہتے ہیں، لیکن آج سائنس مانتی ہے کہ کائنات بھی ایک وقت پر پیدا ہوئی اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اس کی موت بھی واقع ہوگئی۔

کائنات کسی خالق کی تخلیق ہے بذاتِ خود خالق نہیں ہے۔

بہرحال، میرا چائے کا کپ یہ تحریر لکھتے ہوئے تقریباً ٹھنڈا ہو چکا ہے۔ دیکھیں کیا کیا کرنا پڑتا ہے آپ لوگوں کے لیے اپنی چائے بے کار کر دی۔ اب میرا اتنا حق تو بنتا ہے کہ آپ سے اس مضمون پر اظہارِ رائے کی توقع رکھ سکوں!!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں