کیا قبر پر سبزہ اگانے سے عذاب قبر میں کمی واقع ہوتی ہے

فتویٰ نمبر:431

سوال:مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا قبر پر سبزه اگانے سے عذاب قبر میں کمی واقعی ہوتی ہے؟ کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟

کیونکہ کچھ لوگ رسول الله ﷺ کے اس واقعہ کو دلیل بناتے ہیں کہ انھوں نے ایک قبر پر ٹهنی توڑ کے لگائی تھی اورفرمایا تھا کہ جب تک یہ سوکھے گی اس کے عذاب میں کمی رہے گی؟

جواب:قبر پر شاخ گاڑنے یا سبزہ اگانے کی حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ سے صرف ایک مرتبہ شاخ گاڑنا ثابت ہے جو کہ آپ ﷺکی خصوصیت ہے آپ ﷺ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس قبر والے کو عذاب ہو رہا ہےتو آپ ﷺنےاس کے قبر پرکھجور کی ٹہنی گاڑدی اور فر مایا کہ امید ہے کہ جب تک یہ شاخ خشک نہ ہو اللہ تعالی ان کے عذاب میں تخفیف فرمائے،لیکن ہر قبر پرشاخ گاڑنا نہ آپ ﷺ سے ثابت ہے ،اور نہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعين سے لہذا ہر مرد کی قبر پر اس عمل کو ضروری سمجھنا اورعملاً اس کا التزام کرنا درست نہیں ہے  اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
البخاري – (2 / 99)
حدثنا قتيبة، حدثنا جريرعن الأعمش عن مجاهد عن طاوس عن ابن عباس رضي الله عنهمامر النبي صلى الله عليه وسلم على قبرين فقال: «إنهما ليعذبان وما يعذبان من كبير» ثم قال: «بلى أما أحدهما فكان يسعى بالنميمة وأما أحدهما فكان لا يستتر من بوله» قال: ثم أخذ عودا رطبا، فكسره باثنتين، ثم غرز كل واحد منهما على قبر ثم قال: «لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا»
مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (2 / 52)
وقيل تخفيف العذاب كان ببركة يده صلى الله عليه وسلم فالحديث واقعة حال خاص لا يفيد العموم. وقيل: هو عام بدليل أنه تأسى بذلك بريدة بن الحصيب الصحابي فأوصى أن يوضع على قبره جريدتان وروى نحوه عن أبي برزة الأسلمي  والظاهر عندي: أنه مخصوص بالنبي – صلى الله عليه وسلم – ليس بعام، وأما ما يفعله القبوريون من وضع الرياحين على القبور، وغرس الأشجار عليها، وسترها بالثياب وإجمارها وتبخيرها بالعود وإتخاذ السرج عليها فلا شك في كونه بدعة وضلالة. ومن زعم أن هذا الحديث أصل لهذه الأمور المحدثة فقد جهل وافترى على الرسول الله صلى الله عليه وسلم -.
شرح النووي على مسلم  (3 / 202)
وقد أنكر الخطابي ما يفعله الناس على القبور من الأخواص ونحوها متعلقين بهذا الحديث وقال لا أصل له ولا وجه له

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں