کرایہ داری میں میراث

السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

محمد زید  1948 ء سے ایک زمین کا قبضے دار تھا 1965 ء میں محمد زید کا انتقال ہوا،ا س نے  اپنے پیچھے  ایک بیوہ ، دو لڑکے  اور تین  لڑکیاں  چھوڑیں ۔ تینوں کی شادی  اس  کی زندگی  میں ہوچکی  تھی  اور تینوں اپنے گھروں میں تھیں  ۔ البتہ  دونوں  بیٹے  وفات  کے وقت نابالغ  تھے ۔ 1970ء میں اس  طرح کی زمینوں کے کاشتکاروں  سے حکومت  نے زمینیں  واپس طلب کیں  ، 1990ء میں حکومت  اور  کاشتکاروں میں  مقدمہ  چلنے کے بعد  آخر یہ فیصلہ ہو اکہ یہ زمینیں  انہیں  کاشتکاروں  کو دائمی کرایہ پر دے دیے جائیں ۔ لہذا حکومت نےاب یہ زمینیں  کاشتکاروں  کو دائمی  کرایہ پر   دے دی ہیں ، جن کاسالانہ  کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے  اور ہر سال کاغذات  بھی رینیو کروانے  ہوتے ہیں ، یہ بات واضح   رہے کہ ان زمینوں کی مالک حکومت ہی ہے ، کاشتکار صرف  کرایہ دار ہیں  اس  زمین کو آگے بیچ  نہیں سکتے ، البتہ کرایہ پر  دے سکتے ہیں ، تعمیر وغیرہ  بھی کرسکتے ہیں ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ   محمد زید کے نام  کو زمین کرایہ پر تھی کیا اس کے  تمام ورثاء  شادی شدہ لڑکیاں وغیرہ کے درمیان کرایہ داری  میں نام پر لگے گی  یا صرف بیوہ اور دو بیٹے  جن کے پاس ابھی زمین کا قبضہ ہے  انہیں  کے نام لگے ۔

 الجواب باسم ملہم الصواب

 کرایہ داری  کا اصل ضابطہ  تو یہ ہے کہ موجر اور مستاجر  میں سے کسی ایک کی وفات کی صورت میں  کرایہ داری  کا معاملہ  ختم  ہوجاتاہے  اور اس میں وراثت  جاری نہیں ہوتی ۔لیکن  مذکورہ صورت  میں  چونکہ  حکومت  کی طرف سے زمین دائمی  کرایہ پر دی گئی   ہے،ا س لیے  یہ عقد  کرایہ دار  کی وفات سے  ختم نہیں ہوگا ، بلکہ  کرایہ دار کی وفات کے بعد  اس کی نسل میں یہ حق منتقل  ہوجائے گا، لیکن یہ حق ملکیت  کے طور پر نہیں ، بلکہ استحقاق کے طور پر  منتقل ہوگا۔ اسی لیے  اس میں میراث  کے شرعی اصولوں کی رعایت  نہیں رکھی گئی  ۔ بلکہ کرایہ دار کی وفات کے بعد  یہ استحقاق صرف  مذکر اولاد کو ہوگا ، مذکر اولاد  نہ ہونے کی  صورت   میں مونث اولاد  مستحق ہوگی  ، جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب  رحمہ اللہ جواہر الفقہ میں فرماتےہیں :

” یہ انتقال  بحیثیت  ملک  نہیں   ، بلکہ بحیثیت  استحقاق  ہے ۔ا س لیے  اس میں قواعد  میراث  وفرائض  کی رعایت نہیں کی گئی  اولاد  میں اگر لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہیں تو یہ حق صرف  لڑکوں کو ملے گا۔اولاد نرینہ  نہ ہونے کی صورت میں بعض فقہاء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ استحقاق ساقط ہوجائے گا ( کما فی الدر المنتقی للعلائی ) اور بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک  دختر کو اور و ہ نہ ہوتو حقیقی بھائی یا علاتی بھائی کو، وہ بھی نہ ہوتو حقیقی ہمشیرہ  کو اور وہ بھی  نہ ہو تو پھر  یہ حق  ماں کو ملے گا ۔ ( کما فی تنقیح الحامدیہ)

لہذا مذکورہ صورت  میں مرحوم محمد زید   کے  کے صرف  دونوں  بیٹوں کے نام ہی یہ زمین  حق کرایہ داری  کے طور پر  منتقل ہوگی ، بیٹیوں کو یہ حق نہیں  ملے گا۔ا لبتہ  اگر مرحوم نے زمین میں کوئی تعمیر  وغیرہ کی ہو تو اس میں مرحوم کے تمام  ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے کیونکہ وہ مرحوم کے ترکہ  میں شامل ہوگی ۔

محمد نعمان خالد عفی عنہ 

دارالافتاء  برائے تجارتی ومالیاتی امور

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/539447683091148/

اپنا تبصرہ بھیجیں