کسی شخص کی موت پر بستی کے لوگوں کی طرف سے کھانے کا اجتماعی نظم

سوال:- ہمارے علاقے میں ایک مسئلہ جو بڑی کثرت سے پیش آرہا ہے وہ یہ کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے گھر باہر شہروں سے مہمان آتے ہیں اور خود گاؤں کے لوگ بھی کثیر تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں اور قرب و جوار کی عورتیں بھی اپنے گھر چھوڑ کر اہل میت کے گھر اہل میت کو دلاسہ دینے  ان کے غم میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جاتی ہیں  اور تمام رشتہ داروں کا ہجوم بھی اسی گھر میں ہوتا ہے  اس حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بستی والوں نے ایک کمیٹی بنائی ہے  جس میں تمام لوگ متفق علیہ پیسوں کی ایک یکساں مقدار جمع کرتے ہیں  پھر اس پیسے سے وہ کمیٹی کھانا بنواتی ہے  تو کیا ایسی حالت میں یہ کھانا بنانا جائز ہوگا یا ناجائز  یا یہ مکرو ہ ہے ؟ اگر مکروہ ہے تو کونسا مکروہ ہے ؟ پھر اس کھانے کا گاؤں والوں کے لئے رشتہ داروں کے لئے کھانا کیسا ہے ؟ براہ کرم اس مسئلہ کی مدلل وضاحت فرمائیں  کیوںکہ اس مسئلہ میں ہمارے علاقے کے لوگ تاآںکہ علماء کرام بھی بڑے افراط و تفریط میں مبتلا ہیں   بعض کہتے ہیں حرام ہے  بعض کہتے ہیں بلا کراہت جائز ہے ، وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں ۔  

جواب : – جس گھر میں کسی شخص کی موت ہوگئی ہو  اس گھر کے لوگ غم دہ اور رنجیدہ ہوتے ہیں  اس وقت ان کے لئے خود کھانا پکانا ایک تو ناگوار خاطر ہوتا ہے   جب حزن و ملال بڑھا ہوا ہو تو اس کو پکانا تو کیا کھانا بھی اچھا نہیں لگتا دوسرے میت کی تجہیز و تکفین کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں اور اس کی بھی فکر دامن گیر ہوتی ہے  اس لئے اس بات کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ اس کے پڑوسی ان لوگوں کے کھانے کا نظم کریں ؛ چنانچہ رسول اللہ نے حضرت جعفرؓ کی شہادت کی اطلاع کے موقع پر لوگوں کو ہدایت دی تھی کہ حضرت جعفر ؓکے گھر والوں کے لئے کھانا بنایا جائے : ’’ اضعوا لآل جعفر طعاماً   فقد جاء ھم مایشغلھم‘‘ (سنن الترمذی ، ابواب الجنائز ، حدیث نمبر : ۹۹۸)

اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ ایسے غم زدہ لوگوں کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ایک دن ورات ان کے لئے کھانا بنانا مستحب ہے : ’’ ویستحب لجیران أھل المیت والأقرباء الأباعد تھیئۃ طعام یشبعھم یومھم ولیلتھم‘‘۔ (ردالمحتار : ۳؍۱۴۸)

اس کے برخلاف مرنے والے کے اہل خانہ پر آنے والوں کے لئے کھانا بنانا مکروہ اور بدعت ہے   کیوںکہ یہ منشاء شریعت کے بالکل برعکس عمل ہے  شریعت چاہتی ہے کہ غم زدہ لوگوں کی دلداری ہو ، اور اس عمل کے نتیجہ میں ان پر ایک طرح کا بوجھ پڑ جاتا ہے ، جو کسی طرح مناسب نہیں ؛ اسی لئے فقہاء نے اس کے مکروہ اور قبیح و بدعت ہونے کی صراحت کی ہے : ’’ ویکرہ اتخاذ الطعام من أھل البیت ؛ لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ‘‘ ۔ (ردالمحتار : ۳؍۱۴۸)

اب آپ نے جو صورت دریافت کی ہے  وہ بظاہر کھانا بنانے کی پہلی صورت سے قریب ہے  جس میں میت کے اہل خانہ کھانا نہیں بناتے   بلکہ بستی کے لوگ ان کے لئے اور ان کے مہمانوں کے لئے کھانا پکاتے ہیں  تو یہ صورت چند اُمور کی رعایت کے ساتھ درست ہوگی  اول یہ کہ اگر میت کی وفات کے وقت ہی ہنگامی طورپر فنڈ فراہم کیا جاتا ہوتو میت کے اہل خانہ سے اس مد میں کوئی رقم نہ لی جائے  کیوںکہ یہ مرنے والے کے اہل خانہ کی طرف سے دعوت کے مماثل عمل ہوجائے گا ۔

 دوسرے : اگر پہلے سے فنڈ جمع رہتا ہو تو تمام لوگوں پر اس مد میں رقم دینا یا اس کی مقررہ مقدار دینا لازم نہ کیا جائے   کیوںکہ لازم کرنے میں یہ جبر کی صورت ہوجائے گی جو جائز نہیں   ترغیب دی جاسکتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ فی گھر اتنی رقم دیں تو بہتر ہوگا   لیکن اسی رقم کا لزوم نہ ہو ۔

تیسرے : کھانا میت کے اہل خانہ اور ان کے یہاں آنے والوں کو کھلایا جائے   پورے گاؤں کو چاہے وہ اپنے گھروں میں ہوں ، کھانے میں شریک نہ رکھا جائے   کیوںکہ پھر یہ ایک ہندوانہ رسم ہوجائے گی  برادران وطن کے یہاں کسی انسان کی موت کی صورت میں اہل خانہ کو پورے گاؤں یا پوری برادری کو کھانا کھلانا پڑتا ہے   اس دعوت میں اس طریقہ کی مشابہت نہ ہونی چاہئے۔

 چوتھے : کھانا سادہ انداز کا ہوایسا پرتکلف نہ ہو جیساکہ عام طورپر خوشی کے موقع سے بنایا جاتا ہے ۔ کیوںکہ یہ غم کے موقع پر خوشی ومسرت کے اظہار کے مترادف ہے ۔

رہ گیا عورتوں کا تعزیت میں جانا تو اگر وہ شرعی حدود اور پردہ کی رعایت کے ساتھ میت کے گھر جائیں اور اہل خانہ کی خواتین کی تعزیت کریں تو یہ درست ہے : ’’ ویستحب أن یعم بالتعزیۃ جمیع أقارب المیت الکبار والصغار والرجال والنساء إلا أن یکون امرأۃ شابۃ فلا یعزیھا إلا محارمھا‘‘ ۔ (فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۱۸۳)

اپنا تبصرہ بھیجیں