قانونِ ناموسِ رسالت… تعارف وتجزیہ

دوسال قید سے سزائے موت تک کا سفر
آج سے ڈیڑھ صدی قبل ہندوستان کی سرزمین پر دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں صادر ہوتے تھے۔ 1860عیسوی میں جب ہندوستان مکمل طور پر فرنگی سامراج کے زیر تسلط آگیا تو اس نے اسلامی قانون کو ختم کرکے اس کی جگہ ’’تعزیرات ہند ‘‘(The Indian Penal Code) نام کا نیا قانون یہاں نافذ کیا۔ یہ قانون انگلش اور ترمیم شدہ اسلامی قوانین سے مرکب تھا۔ انگلش قانون میں اس وقت بھی ’’قانون توہین مسیح‘‘ بطور کامن لاء موجود تھا اور آج بھی ہے، لیکن انگریز کا متعصبانہ رویہ دیکھیے کہ اس کے باوجود اس نے ’’تعزیرات ہند‘ میں ’’ناموس رسالت ‘‘ کا کوئی قانون شامل نہیں کیا۔ 1927عیسوی میں غازی علم الدین کے ہاتھوں جب گستاخ رسول،راج پال کے قتل کا عبرت ناک واقعہ رونما ہوا تو حالات سے مجبور ہوکر انگریز کو ’’ناموس رسالتA‘‘ کا قانون وضع کرنا پڑا۔ انگریز کے وضع کردہ قانون کا متن یہ تھا:
’’دفعہ 295الف: جو کوئی عملاً اور بدنیتی سے تحریری یا تقریری یا اعلانیہ طور پر ہر میجسٹی کی رعایا کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے یا توہین کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس جماعت کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں تو اسے دو سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘‘
ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ ناموس رسالت کی توہین کے حوالے سے انگریزوں کی مقرر کردہ سزائیں کتنی معمولی ہیں!!
 بدقسمتی سے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ایک طویل عرصہ (تقریباً 36 سال) تک ہو بہو یہی قانون صرف ایک لفظ کے فرق کے ساتھ پاکستان کے آئین کا حصہ بنا رہا۔ (’’ہر میجسٹی کی رعایا‘‘ کا لفظ حذف کرکے اس کی جگہ ’’پاکستان کے شہریوں‘‘ کا لفظ ڈال دیا گیا)
1984ء ضیاء دور حکومت میں علمائے کرام اور ختم نبوت کے جانبازوں کی تحریک سے مذکورہ بالا انگریزی قانون میں ترمیم منظورکی گئی جس کا متن یہ ہے:
’’دفعہ 295C الف: جو کئی عمداً یا تحریری طور پر یا بطور طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلا واسطہ، اشارۃً یا کنایاً نام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے، وہ سزائے موت یا سزائے عمر قید کا مستوجب ہوگا اور اسے سزائے جرمانہ بھی دی جائے گی۔‘‘
اس قانون کی رو سے شان رسالت مآب صلی اﷲ علیہ والہ وسلم میں گستاخی کرنے والا دو سزائوں میں سے ایک کا حق دار تھا:
(1)    موت        (2)   عمر قید
جبکہ وحی، مقتدر فقہا اورمسلمان قوم کا عام تاثر یہ ہے کہ توہین رسالت کے جرم کی سزا ’’موت‘‘ سے کم ہرگز برداشت نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ محترم محمد اسماعیل قریشی صاحب کی کوششوں سے، پہلے 1991ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے ’’عمر قید‘‘ کی سزا کو غیر مؤثر قرار دیا اور پھر1992 ء میں  قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ ترمیم اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔ اور بحمداﷲ اب پاکستان کے آئین میں توہین رسالت کی سزا ’’موت‘‘ ہے۔
ہائے افسوس!
لیکن افسوس کا مقام ہے! تحفظ ناموس رسالت کا قانون بنے ہوئے دس سال نہیں بیتے کہ اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنے جانے لگے۔ 2000ء میں سب سے پہلے سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز نے شوشہ چھوڑا کہ ’’اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اس لیے اس کے طریقۂ کار میں ترمیم کی ضرور ت ہے۔‘‘ چار سال بعد 2004ء میں ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے یہ اعلان داغ دیا کہ ’’قانون توہین رسالت میں نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ حدود قوانین انسانی ذہن کے اختراع کردہ ہیں۔‘‘ تاہم مصلحت وقت اور حالات کے پیش نظر وہ ناموسِ رسالت کے قانون میں تو کوئی تبدیلی نہ کرسکے البتہ قصاص، دیت اور زنا وغیرہ کے کچھ قوانین میں ترمیم کر گئے۔ مغربی قوتوں کی نظر میں یہ بھی کچھ کم کامیابی نہ تھی کیونکہ ’’منصوبے‘‘ کا پہلا زینہ طے ہوچکا تھا۔ پرویز دور حکومت کے بعد اب موجودہ حکومت اسی بیرونی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے خواب دیکھ رہی ہے(جو ان شاء اﷲ! شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا) اور اس کے لیے وہی پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں کہ ’’قانون کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘ اقلیتوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔‘‘ ’’یہ وحی نہیں بلکہ انسانی ذہن کی اختراع ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ
انصاف فرمائیے!
جمہوری ممالک آمر کے دور اقتدار میں کیے گئے اقدامات کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جمہوریہ پاکستان میں آمر کے منصوبوں (بالخصوص ایسے مکروہ عزائم) سے اظہار براء ت کی بجائے ان کی تکمیل اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی ناپاک جسارت کی جارہی ہے!!!
غور کیجیے :
 پاکستان میں لا تعداد ایسے قوانین ہیں جو سخت گیر، ظالمانہ اور انسانی حقوق کے سراسر خلاف ہیں۔ ایسے قوانین کو درست کرنے کی بجائے حکومتوں کی توپوں کا رخ اسلامی قوانین کی طرف ہی کیوں ہوتا جارہا ہے؟
ذرا سوچیے:
 جس ملک کے اٹھانوے فیصد عوام غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، عوام کی فاقہ کشی اور غربت کا یہ عالم ہو کہ وہ اپنے بچوں کو فروخت کردیتے ہوں۔ بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیاں کی جارہی ہوں۔ ملک میں افراط زر، دہشت گردی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو، معیشت قرضوں کے سہارے چل رہی ہو اور کسی بھی وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ہو، ایسے ملک میں قوم اور ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے ایسے حساس اور اجماعی مسائل پر اپنی ساری توجہ مرکوز کردینا کون سی دانش مندی اور ملک و قوم کی خدمت ہے؟ قوم کو روٹی، کپڑا،مکان اور بنیادی حقوق چاہئیں، مغربی ایجنڈوں کی تکمیل نہیں!
قانون کے غلط استعمال کا واویلا:
 ’’قانون کا غلط استعمال‘‘ اگر ایسی وجہ ہے جس کی بنیاد پر قانون میں ترمیم ناگزیر ہو تو اس ’’منطق‘‘ سے تو دنیا کے سارے ہی قوانین میں ترمیم لازمی ٹھہرتی ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہ ہورہا ہو؟ آج ایک طرف چوری، ڈکیتی، قتل، عصمت دری، اغواء برائے تاوان اور زمینوں کے ناجائز قبضے میں ملوث عناصر قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے صاف بچ نکلتے ہیں تو دوسری طرف ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے ہی جیل کی کال کھوٹھریوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں! آپ کس کس قانون کو بدلیں گے؟
قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے قانون بدلا نہیں جاتا، بلکہ اس کو مؤثر رکھتے ہوئے غلط استعمال کو روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اقلیتی برادری کے لیے:
اس قانون کے نافذ ہونے کی تاریخ سے آج تک کسی شخص کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔ 17 کروڑ کی آبادی میں سے ایک رپورٹ کے مطابق صرف 67 کے لگ بھگ مقدمات ابھی تک اس قانون کے تحت عدالتوں میں زیر سماعت آئے ہیں اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ شرعی شہادت کی کڑی شرائط کی وجہ سے فرد جرم کسی پر بھی عائد نہیں کی گئی، پھر یہ قانون صرف غیر مسلموں کے خلاف نہیں، بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ناموس رسالت میں گستاخی کا مرتکب قرار پائے تو مرتد ہونے کی وجہ سے وہ بھی بالا جماع واجب القتل ہے۔ اس لیے یہ بات جھوٹ ہے کہ اقلیتی برادری کو اس قانون کی وجہ سے کوئی پریشانی ہے!
مسیحی برادری کو تو اس قانون پر خوش ہونا چاہیے کہ خود بائبل کی تعلیمات کے مطابق پیغمبروں کی توہین کی سزا ’’موت بذریعہ سنگسار‘‘ ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بھی اس جرم کی سزا ’’موت‘‘ رہ چکی ہے۔ (بعد میں انہوں نے ترمیم کی بھی تو یہ کہ عمر قید جیسی سخت سزا متبادل تجویزکی)
گستاخ کی شرعی اور قانونی حیثیت:
 شان رسالت مآب میں گستاخی کی شرعی سزا کیا ہے؟ یہ ایک نہایت تفصیل طلب موضوع ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئمہ ثلاثہ… امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل رحمہم اﷲ … کے نزدیک ’’توہین رسالت‘‘ کے جرم کی سزا، گستاخی کی ہر صورت میں ’’قتل‘‘ بطور ’’حد شرعی‘‘ ہے۔ جس میں ترمیم اور تبدیلی کا حاکم وقت کو بھی اختیار نہیں ہے۔ جبکہ فقہ حنفی میں اس کی کچھ تفصیلات ہیں اور وہ یہ کہ
(۱)    گستاخی کا مرتکب مسلمان ہو تو وہ گستاخانہ کلمات کی ادائیگی سے مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا بطور حد شرعی قتل ہے۔ اس کا ثبوت وحی یعنی قرآن و حدیث اور اجماع اُمت سے ہے۔
(۲)     گستاخی کا مرتکب مسلمان ملک کا کافر شہری ہو تو فقہ حنفی کی رو سے ذیل کی صورتوں میں اس کی سزا ’’قتل‘‘ بطور ’’تعزیر‘‘ ہے۔
(الف)     اعلانیہ طور پر گستاخی کا مرتکب ہوا ہو
(ب)     گستاخی کی کسی طرح تشہیر کی ہو
(ج)     گستاخی کا عادی ہو
جرم کی نوعیت سخت ہونے کی وجہ سے ان صورتوں میں سزافقہ حنفی کے مفتی بہ قول کے مطابق ’’قتل‘‘ سے کم نہیں ہوسکتی۔البتہ ایک صورت یہ ہے کہ کافر نے خفیہ طور پر گستاخی کی ہو جس کا کسی طرح عدالت کو علم ہوگیا ہو تو جرم کی نوعیت میں تخفیف کی وجہ سے حکومت کو اختیار ہے کہ اس کو قتل کی سزا دے یا اور کوئی سخت سزا، مثلاً : عمر قید وغیرہ۔
(شامی جلد ۶)
یہی ایک خاص صورت ہے جس میں حکومت وقت کو ترمیم اور تبدیلی کی گنجائش ہے، بقیہ تمام صورتوں میں جرم توہین رسالت کی سزا بالا جماع ’’قتل‘‘ ہی ہے۔ چاہے وہ حدًا ہو یاتعزیراً اور سیاستہً۔
غور کیا جائے تو تحفظ ناموس رسالت کا موجودہ قانون، وحی، مسلمانوں کے عام تاثر، آئمہ مذاہب کے فقہی مسالک اور حالات حاضرہ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ توہین رسالت کی علی الاطلاق ’’قتل‘‘ کی سزا قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے، یہ کسی مسلک کے خلاف بھی نہیں اور جرم کے مکمل سدباب کے لیے، سیاسی اور عقلی اعتبار سے بھی، اس کی سزا ’’موت‘‘ سے کم ہرگز نہیں ہوسکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں