عید میلادالنبی کی شرعی حیثیت

مروجہ عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ تمام مسلمانوں کیلئے موجبِ خیروبرکت اور باعثِ فخرو سعادت ہے لیکن شریعت نے ہر کام اور عبادت کیلئے کچھ حدود وقواعد مقرر کئے ہیں  ان حدود وقواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر عمل کا انجام دینا ضروری ہے اور ان سے تجاوز کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، اسکی سادہ سی مثال یہ ہے کہ نماز اہم ترین عبادت ہے لیکن آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح سیرتِ طیبہ کے مبارک تذکرے کے بھی کچھ حدود وقیود ہیں مثلاً سیرت کے تذکرے کو کسی معین تاریخ یا مہینے کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ سال کے ہر مہینے اور مہینے کے ہر ہفتے اور ہفتے کے ہر دن میں اسے یکساں طور پر باعثِ سعادت سمجھا جائے اور اسکے لئے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کرلیا جائے، مثلاً سیرت پر لکھی گئی معتبر کتابوں کے مطالعہ کا معمول بنالیا جائے وغیرہ، ایسا کرنانہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجروثواب ہے مگر ان تمام مفاسد اور منکرات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے جو عام طور پر مروّجہ میلاد کی محفلوں میں پائے جاتے ہیں  ان میں سے بعض مفاسد ومنکرات درج ذیل ہیں:

(1)…ماہِ ربیع الأول کی بارہ تاریخ کو خصوصیت کے ساتھ محفلِ میلاد منعقد کرنا یا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا ، کیونکہ اسکا کوئی ثبوت حضرات ِ صحابہ کرام و تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین کے مبارک دور میں نہیں ملتا،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو کسی معین تاریخ یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرلینا دین میں اضافہ اور بدعت ہے۔

(2)…ان محفلوں کے انعقاد میں ریاء اور نام ونمود شامل ہونا۔

(3)…اگر کوئی شخص ایسی محفلوں میں شریک نہ ہو تو اسے برا سمجھنا۔

(4)…ایسی محفلوں میں حلوہ یا مٹھائی کی تقسیم کو لازم سمجھنا۔

(5)…مٹھائی  حلوہ وغیرہ کیلئے لوگوں سے چندہ وصول کرنا جس میں لوگ عموماً لحاظ ومروّت کی خاطر یا جان چھڑانے کیلئے چندہ دے دیتے ہیں اور حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا مال اسکی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

(6)…ان محفلوں میں ضرورت سے زائد روشنی اور چراغاں کا اہتمام ہونا، انکی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف کرنا اور غیر ضروری آرائش پر حد سے زیادہ اخراجات کرنا جو بلاشبہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

(7)…جلسوں کے انتظامی انہماک کی وجہ سے یا رات کو دیر تک جاگنے کے سبب فرض نماز ترک کرنا یا اسکا قضاء ہوجانا اور مرد وزن کا آزادانہ اختلاط جیسے خلافِ شرع امور اور گناہ کبیرہ کا بے دریغ ارتکاب کرنا۔

(8)…ان محفلوں میں بعض دفعہ بے احتیاطی کی وجہ سے ایسی کہانیاں بیان کردی جاتی ہیں جو صحیح ومعتبر روایات سے ثابت نہیں ہوتیں حالانکہ اس مقدّس موضوع کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح روایات سے ثابت شدہ واقعات نہایت احتیاط کے ساتھ بیان کئے جائیں۔

(9)…آنحضرت نے ہر شعبہ زندگی سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیمات بیان فرمائی ہیں  اسکا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے ۔ عبادات ، معاملات ، معاشرت اور اعمال و اخلاق پر سیر حاصل گفتگو ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ آج کی زیادہ تر میلاد کی محفلوں میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا تذکرہ کیا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ آپکے معجزات کا بیان ہوجاتا ہے لیکن عموماً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جامع تعلیماتِ نبوی کا بیان نہیں ہوتا اور انکی جگہ خرافات ، مفاسد اورمنکرات نے لے لی ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا وجوہ کی بناء پر میلاد کی رائج الوقت محفلیں واجب الترک ہیں ، البتہ اگر ان مفاسدمیں سے کوئی بھی نہ ہو اور شرعی حدود و آداب کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی کوئی محفل محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر منعقد کرلی جائے تو اسمیں ان شاء اللہ سراسر خیر وبرکت ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں