مسئلہ طلاق کی وضاحت اور موجودہ ملکی حالات میں مسلمانوں کیلئے لائحہ عمل

یہ تحریر خصوصاً خطباء کے لیے اور عموماً عوام الناس کے لیے ہے حضرات خطباء کرام کل جمعہ کے اردو خطبہ میں اس موضوع پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالیں اور مسلم پرسنل لاء کی جانب سے چلائی جارہی دستخطی مہم میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب للعالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین محمد

و علی الہ و اصحابہ اجمعین

اما بعد !

فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی کتابہ المجید اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقو ھن لعد تھن واحصوالعدۃ، وقال تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔ صدق اللہ العظیم

وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابغص الحلال الی اللہ الطلاق ۔(رواہ ابوداؤد)

بزرگانِ محترم !

جس رب نے انسانوں کو پیدا کیا اُسی نے انہیں جینے کا سلیقہ اور طریقہ بھی سکھلایا ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ انسانیت کو وہ قوانین دئیے گئے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ان کے محافظ اور مسائل سے نجات کا ذریعہ ہیں۔ ان قوانین کا ایک اہم حصہ عائلی اور معاشرتی مسائل پر مشتمل ہے اور ان کا انکار کرتے ہوئے کوئی شخص اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ انہی عائلی مسائل میں نکاح اور طلاق بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نکاح کو مرد اور عورت کیلئے سکون کا ذریعہ بنایا کہ جس کے ذریعہ گھر آباد ہوتے ہیں اور میاں ‘ بیوی کا بہتر تعلق نسلوں کے وجود ان کی عمدہ تربیت اور ان کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ کے وجود کے ذریعہ بنتا ہے۔ ومن آیٰتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ (سورۃ الروم :21)

 ترجمہ :اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس چین و سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی رکھ دی ۔

قرآن و حدیث کا ایک حصہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور عفو و در گزر سے کام لینے کی ترغیب پر مشتمل ہے۔ چنانچہ ایک طرف الرجال قوامون علی النساء کہ ’’ مرد عورتوں کے نگران ہیں‘‘ کے ذریعہ عورتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مردوں کا احترام کریں اور ان کی ماتحتی میں اپنی کامیابی کے راستے تلاش کریں تو دوسری طرف ولھن مثل الذین علیھن بالمعروف کہ ’’ ان عورتوں کو معروف طریقہ کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کو ان پر حاصل ہیں‘‘ یعنی جس طرح عورتوں کیلئے لازم ہے کہ وہ مرد کے حقوق ادا کریں ویسے ہی مردوں پر بھی لازم ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کریں۔ ان کے ساتھ عمدہ سلوک کریں   ان کے رہنے  کھانے اور لباس کا انتظام کریں۔ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئیں۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لا ھلی ‘‘ کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے والا ہوں۔

میاں بیوی اگر ایک دوسرے کے حقوق طلب کرنے کے بجائے ان پر لازم حقوق ادا کرتے رہیں تقویٰ اختیار کریں اور جو کچھ ان کے حقوق مارے جارہے ہیں ان کو معاف کرتے رہیں اور جو باتیں ایک دوسرے کو ناپسند ہیں ان کو نظر انداز کرتے رہیں تو یہ عمل اللہ کی طرف سے خیر و برکت اور رحمتوں کے نزول کا باعث ہوتاہے۔ سورۂ نساء میں حق تعالیٰ نے مردوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’وعاشرو ھن بالمعروف ‘‘ کہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو‘‘ فأن کرھتموھن شیئا فعسی ان تکرھوشیئا ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً ’’اور اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ اور عورتوں سے کہا گیا ہے کہ ’’فالصالحات قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ کہ عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں‘ مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے ( ان کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔

اور کبھی ساتھ رہتے ہوئے مزاج میں موافقت نہ ہونے کی بناء پر سرکشی اور مخالفت کا اندیشہ ہونے لگتا ہے تو شوہر کو حکم دیاگیا کہ ان کو نصیحت کریں اللہ کے احکامات سے واقف کروائیں او راگر اس سے بات نہ بنے تو انہیں ہلکی سی تنبیہ کریں اور اگر یہ تمام امور سے مسائل حل نہ ہوں اور آپس میں پھوٹ پڑھنے کا اندیشہ ہو تو مرد کے خاندان سے ایک انصاف پسند اور عورت کے خاندان سے ایک انصاف پسند شخص کو معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کرے۔

سورۂ نساء میں بیان کئے گئے ان عمدہ اصولوں پر اگر مرد و عورت گامزن رہیں تو نہایت آسانی کے ساتھ ان کے درمیان محبت  اتفاق اور راحت و سکون کی راہیں کھل سکتی ہیں اور بہت سے خاندان افتراق اور انتشار سے محفوظ ہوسکتے ہیں اور عمومی حالات میں آپسی اختلافات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود کبھی صورت حال اتنی سنگین ہوجاتی ہے کہ طلاق   خلع یا فسخ نکاح ناگزیر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کبھی تو میاں   بیوی میں سے کسی ایک کا ظالمانہ حد تک برا سلوک کرنا جس کو دوسرا حد درجہ کوشش کے باوجود برداشت نہیں کرسکتا جیسے عورت کا بدچلن ہونا وغیرہ جس سے کوئی باغیرت مرد برداشت نہیں کرسکتا یا مرد کا انسانیت سوز مظالم ڈھانا جس کے ساتھ عورت کو مظلوم بننے کیلئے مرد کے حوالہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بیوی ہونے کے ناطہ اسی مظلومیت میں اپنی زندگی گزار دے۔

اور کبھی مرد یا عورت کی جانب سے ظلم تو نہیں ہوتا دونوں کے مزاج میں اس قدر تفاوت ہوتا ہے کہ اصلاح کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں اور میاں  بیوی خود ہی علیحدگی میں خیر محسوس کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان حالات میں اگر انہیں علیحدگی کی اجازت نہ دی بلکہ اسی گھٹن کے ساتھ انہیں ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے تو کوئی عقلمند انسان اسے انصاف پر مبنی قانون تصور نہیں کرے گا۔

چنانچہ ایسے ہی حالات کیلئے شریعت نے طلاق کی اجازت دی تاکہ انسانیت کو اس کا حق دیاجاسکے اور بادلِ نخواستہ کسی کو مظلوم بنے رہنے پر مجبور ہونا نہ پڑے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ایسی واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ انسان ان پر عمل کرتے ہوئے ہر قسم کی زحمت اور مصیبت سے بچ سکتا ہے۔

چنانچہ سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات میں بتلایا گیا کہ ’’یا ایھا النبی اذ ا طلقتم النساء فطلوقوھن لعد تھن واحصوالعدۃ‘‘ کہ اے  نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کو ان کی عدت کے وقت طلاق دو جب میاں بیوی میں طلاق کے ذریعہ علیحدگی ہوجائے تو عورت کو دوسرا نکاح کرنے کیلئے کچھ مدت انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مدت کو عدت کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں طلاق دینے والوں کو حکم دیاگیا ہے اگر انہیں طلاق دینی ہے تو ایسے وقت میں طلاق دیں جب عدت شروع ہونے والی ہو ۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ایسے وقت طلاق نہ دی جائے جب بیوی کو ماہواری آرہی ہو بلکہ اسے پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں بیوی سے جماع بھی نہ کیا ہو۔ اس حکم میں ایک اہم مصلحت یہ ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ ایک مرتبہ قائم ہو جائے تو وہ قائم رہے اور اگر طلاق کے ذریعہ اس کے ٹوٹنے کی نوبت آئے تو وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر شریفانہ طریقہ سے ہو‘ اور یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں شوہر کی رغبت بیوی کی جانب شباب پر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ طلاق دے رہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کسی وقتی بے رغبتی کا نتیجہ نہیں ہے پھر کہا گیا کہ واتقو اللہ ربکم لا تخرجوھن من بیوتھن ‘‘ کہ اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے اور ان عورتوں کو طلاق کے ساتھ ہی اپنے گھروں سے مت نکال دو بلکہ عدت کے دوران ان کے لئے رہائش  کھانے پینے کا انتظام کرو اور طلاق دینے کا بھی عمدہ طریقہ یہ بتلایاگیا کہ مرد صرف ایک طلاق دے اور عورت عدت کے دوران اس کے گھر میں کسی اور کمرے میں رکی رہے ’’لعل اللہ یحدت بعد ذلک امرا ‘‘ کہ شائد اللہ تعالیٰ ان کے درمیان کوئی نئی بات پیدا کردے یعنی دونوں کو اپنی اپنی غلطی کا احساس ہو اور عدت کے دوران پھر ایک ساتھ نبھانے کا فیصلہ کرلیں تو نہ پھر سے نکاح کی ضرورت ہوگی نہ مہر کی ؛بلکہ رجوع کرنے کے ذریعہ دونوں پھر ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں گے۔ اگلی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارپائیں گے۔ اگر اس طلاق کے بعد عدت کے دوران شوہر نے رجوع نہیں کیا اورعورت اپنے گھر چلی گئی اور چند ماہ بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا تب بھی راستے کھلے ہیں دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے اور اس دوسرے نکاح کے بعد پھر طلاق کی نوبت آئے اور شوہر نے صرف ایک طلاق دی اور عورت نے عدت مکمل کرلی اور پھر دونوں نے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا تو شریعت ایک اور مرتبہ ان کو مہلت دیتی ہے کہ وہ نکاح کریں اور عمدہ زندگی گزار سکیں لیکن اس مرتبہ بھی نباہ نہ ہو سکا اور شوہر نے طلاق دے دی تو اب ان کیلئے دوبارہ نکاح کی راہیں دشوار ہوجاتی ہیں اور پھر یہ دونوں آپسی رضامندی سے بھی نکاح نہیں کرسکتے‘ سوائے اس کے کہ اس عورت نے کسی اور مرد سے نکاح کرلیا اور اس سے ازدواجی تعلقات بھی قائم کرلئے اور پھر اتفاقاً اس نے بھی طلاق دے دی اور عورت دوبارہ پہلے شوہر کے نکاح میں آناچاہتی ہے تو پھر ان کیلئے اجازت ہے وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔

برادران گرامی! ان تمام احکامات میں غور کرنے کے بعد ہر شخص یہ محسوس کرسکتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے کس طرح سکون اطمینان اور ظلم سے نجا ت کی راہیں ہموار کی ہیں کہ جس کے ذریعہ ہر انسان عدل و انصاف کو حاصل کرسکتا ہے اور راحت کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔

ان تعلیمات کے تناظر میں جب ہم موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ دشمنانِ اسلام جو اسلامی تعلیمات پر انگلی اٹھارہے ہیں اس کی وجہ شریعت اسلامیہ میں طلاق کی اجازت نہیں بلکہ بعض افراد کی جانب سے اس کا غلط استعمال ہے۔ بہت سے لوگ ناگواری کی صورت میں مصالحت کی کوشش کے بغیر طلاق کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ ابوداؤد کی روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ ابعض الحلال الی اللہ الطلاق‘‘ کہ اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے۔۔ بعض لوگ بوقت ضرورت جب طلاق دیتے ہیں تو ایک ساتھ تین طلاق دیتے ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا اور اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ نسائی کی روایت میں ہے نبی رحمت ﷺ کو ایک شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں  یہ سن کر نبی کریم ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کیا میرے رہتے ہوئے اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جائے گا۔

علامہ زمخشری ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی شخص تین طلاق ایک ساتھ دے کر آتا تو آپ اس کو کوڑے لگواتے اور سخت سزادیتے۔ اس عمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ زوجین آپسی رضامندی سے دوبارہ ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیں تو اس کیلئے راہیں ہموار نہیں رہیں گی۔ اسی بنیاد پر بہت سے لوگ اپنی نادانی یا وقتی غصہ کی وجہ سے زندگی بھر مشکلات برداشت کرتے ہیں لیکن ان کی یہ دشواری شریعت کے اجازت طلاق کی بناء پر نہیں ہوتی بلکہ احکامِ شرعیہ کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

آج طلاق کے مسئلہ کو لے کر ایک ہوّا کھڑا کیاجارہا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا اور ملک کے مختلف فرقہ وارانہ تنظیمیں عورت کو مظلومیت اور حکم طلاق کی وجہ سے اس کے حقوق کے مارے جانے کا پروپیگنڈہ کررہی ہیں اور حکومت چاہتی ہے اس پس منظر میں مسلمانوں کو اس کے دستوری حق سے محروم کیاجائے اور ملک کے دستور میں مسلمانوں کو اپنی شریعت پر عمل کرنے کا جو بنیادی حق آزادی سے اب تک حاصل ہے اس کو چھین لیاجائے اور انہیں مجبور کیاجائے کہ وہ دستور خداوند ی کو چھوڑ کر کسی اور دستور پر عمل کریں۔ چنانچہ حکومت نے دیگر تنظیموں کی مدد سے سپریم کورٹ میں اپنا بیان داخل کیاہے جو سراسر شریعت کے احکام میں مداخلت پر مبنی ہے اور جن باتوں کوبنیاد بناکر احکامِ شرعیہ میں مداخلت کا جواز پیدا کرنے اور مسلمانوں کو ان کے دستوری حق سے محروم کرنیکی کوشش کی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بعض مسلمانوں کی جانب سے احکامِ شرعیہ میں غلط انداز میں استعمال کی وجہ سے انہیں اس عمل سے باز رکھنے کے بجائے احکام شرعیہ میں تبدیلی کی خواہاں ہے جسے کوئی مسلمان ہر گز قبول نہیں کرسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار کون ہیں؟ تو جاننا چاہئے کہ اس سلسلہ میں فرقہ پرستوں کی بدنیتی ان حالات کی ذمہ دار ہے جو مسلمانوں کو شریعت پر عمل کرنے سے روکنے کیلئے کوشاں ہیں اور داخلی طورپر وہ مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے حق طلاق کے استعمال کے دوران احکامِ شرعیہ کا لحاظ نہ رکھا اور نفسانی خواہشات  غصہ یا جذبات سے مغلوب ہو کر ایک ساتھ تین طلاق کا استعمال کیا۔

اسی طرح وہ لوگ اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی عائلی مسائل کو دارالقضاء یا دارالافتاء میں حل کرنے کے بجائے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا رخ کیا اور احکامِ شرعیہ پرعمل کرنے کا اختیار ہونے کے باوجود اس سے بیزاری کا اظہار کیا۔ ان حالات کا ذمہ دار وہ ظالم معاشرہ بھی ہے جس نے مطلقہ عورتوں کیلئے زمین تنگ کردی اور ان کے دوبارہ نکاح کو معیوب قرار دیا۔ ان تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ مسلمان اللہ کا خوف پیدا کریں۔

احکامِ شریعت سے خود بھی باخبر ہوں اور ملت کو اس سے واقف کروائیں۔ عائلی مسائل کو من مانی حل کرنے کے بجائے علماء کرام اور مفتیانِ کرام کی نگرانی میں ان کو سلجھانے کی کوشش کریں اور موجودہ حالات میں حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدام کی بھر پور مخالفت کریں اور اس حقیقت کو واضح کریں کہ مسلمان احکامِ خداوندی کو پس پشت ڈال کر کسی او ر حکم پر ہر گز عمل نہیں کرسکتا اور اسلامی احکام میں دستور خداوندی کے علاوہ کسی اور دستور کو قبول نہیں کرسکتا۔

اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملک گیر سطح پر دستخطی مہم شروع کی ہے جس کے ذریعہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو یہ واضح کرنا ہے کہ ہم تمام نکاح‘ طلاق‘ خلع‘ وراثت وغیرہ کے سلسلہ میں شریعت کے احکام سے مکمل طورپر مطمئن ہیں اور ان قوانین میں کسی بھی طرح کی ترمیم کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے ایک فارم بھی مرتب کیاگیا ہے ۔ہم اس فارم کو حاصل کریں اس پر اپنی تفصیلات کا اندراج کریں اور اس پر دستخط کے ذریعہ اپنی ملی شعور اور احساس کا عملی ثبوت پیش کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ راست عطافرمائے اور ہر طرح کے شر ور و فتن سے ہماری حفاظت فرمائے ‘ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں