میت کے گھر کھانا کھانے اور دعا کا حکم

سوال: جس گھر میں فوتگی ہو وہاں کھانا جائز ہے یا نہیں ؟

جب تعزیت کے لیے جاتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کردعا کرتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے ؟

جواب:جب کسی کی وفات هوجائے تو اس کے گهر والے چونکہ صدمہ  میں مبتلا ہوتے ہیں  اس لئے اہل  محله اور رشتہ دار اهل ” میت ” کا کهانا تیار کریں اور جو نماز جنازه میں شریک نہ ہوسکا وه جاکر تعزیت بهی کرسکتاہے .

لیکن میت کے گهر اجتماع اور اہل  میت کا لوگوں کے لئے کهانا تیار کرنا ایک بهت بڑا گناه ہے اور بہت  سے علاقے اس قبیح حرکت کا شکار ہو  کر مقروض ہوجاتے ہیں  اور بسا اوقات وه تو سود پر قرض لینے پر بهی مجبور ہوجاتے ہیں اس طرح سے وارثوں کا اور بطور خاص یتیموں کا مال برباد کیا جاتا ہے ۔
1: حضرت جریر رضی الله تعالی عںه بن عبدالله ” المتوفی51 هجری ” فرماتے ہیں :
” کنا نری الاجتماع الی اهل المیت وصنعته الطعام من النیاحته “

* ابن ماجه ص117 ، مسند امام احمد ج2 ص204 *
ترجمه: ہم  یعںی حضرات صحابه کرام رضوان الله اجمعین میت کے گهر جمع ہونے کو اور میت کے گهر کهانا تیار کرنے کو نوحہ سمجهتے تهے.
2: مرفوع حدیث میں آیا هے که میت پر آواز کے ساته رونا ، بین اور نوحه کرنا اهل جاہلیت کا کام هے اور نوحه کرنا جمہور ر سلف وخلف کر نزدیک حرام ہے .” امام نووی شرح مسلم ج1 ص303 “
اسی طرح میت کے گهر کا کهانا بهی سمجها جائے یہ روایت دوطریق سے مروی هے.
علامه هثیمی رحمه الله ایک سند کے متعلق لکهتے هیں که یه بخاری کی شرط پر صحیح هے اور دوسری کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ  مسلم کی شرط پر صحیح ہے .
* کتاب ، مجمع الزوائد *

3: حضرت علامه ابن امیر الحاج المالکی رحمه الله ” المتوفی 737 ه ” لکهتے هیں که:
” اهل میت کا کهانا تیار کرنا اور لوگوں کا جمع  ہونا اس میں کوئی چیز منقو ل نہیں  ہے بلکہ  یہ  بدعت غیر مستحب ہے   
بعض لوگوں نے یہ  بدعت نکالی ہے کہ  میت کے تیجہ  پر طعام تیار کرتے ہیں  اوریہ  ان کے نزدیکمعمول بہ   کام بن گیا ہے.
” کتاب مدخل ج3 ص275″
حضرت علامه محمد بن محمد مبنجی حنبلی رحمه الله ” المتوفی 777هجری ” تسلیته المصائب ص99 ” میں
اور حضرت امام شمس الدین بن قدامه حنبلی رحمه الله ” المتوفی 682 هجری ” شرح منقنع للکبیر ج2 ص426 میں اور امام موفق الدین بن قدامه حنبلی المتوفی 620هجری ” لکهتے ہیں :

4: ” کہ  اہل  میت جو لوگوں کے لئے کهانا تیار کرتے ہیں  وه مکروه ہے کیونکہ  اس میں اهل میت کو مزید تکلیف اور شغل میں مبتلا کرنا ہے  نیز اس سے مشرکین اہل  جاہلیت  کے ساتھ مشابهت بهی پائی جاتی ہے  ”
* کتاب المغنی ج2 ص413 

5: حضرت علامه ابن عابدین شامی رحمه الله لکهتے هیں:
مذهبنا ومذهب غیرنا کالشّافعیته والحنابلته …… همارا ( یعنی ہمارے  احناف کے نزدیک ) اور حضرات شوافع اور حضرات حنابله رحمه الله کا یهی مذہب ہے .
” ج1 ص841 “
6: حضرت امام نووی رحمه الله شرح منهاج میں لکهتے ہیں :

” الاجتماع علی مقبرته فی الیوم الثالث وتقسیم الورد والعود والطعام فی الایام المخصوصته کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والاربعین والشهر السادس والسنته بدعته ممنوعته “

قبر پر تیسرے دن اجمتاع کرنا اور گلاب اور اگرکی بتیاں تقسیم کرنا اور مخصوص دنوں کے اندر روٹی کهلانا ، مثلاََ ” تیجه ، پانچواں ، نواں ، دسواں ، بیسواں اور چالیسواں ” دن اور چهٹا مهینه اور سال کے بعد یه سب کے سب امور بدعت ممنوعه هے .
* بحواله انوار ساطعه ص105 *
7: اسی طرح سے حضرت ملا علی قاری رحمه الله نے لکهتے ہیں 
همارے مذهب ” حنفی ” کے حضرات فقهاء کرام نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ  میت کے پہلے  اور تیسرے دن اور اسی طرح ہفتہ  کے بعد طعام تیار کرنا مکروهہے .
* مرقاته شریف ج5 ص482 *
دوسرے سوال کا جواب:
تعزیت کے لئے جائے تو وہاں  مرحوم کے لئے ہاتھ  اٹهاکر دعا کرنا جائزہے کرسکتے ہیں .
البته بعض جگهوں میں رواجہے  کہ  بار بار هاتهوں کو اٹهاکر دعا کیا جاتا هے نئے آنے والوں کےساتھ پهلے سے موجود لوگ بهی بار بار ہاتهوں کو اٹهاکر دعا کرتے رہتے اور ایک رسم و رواج بنا رکها ہے  یہ درست نہیں ہے  اس سے اپنے آپ کو بچائے.
* فتاوی محمودیه *
والله اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں