میسیج میڈیا کے شرعی اُصول

میسیج، پیغام رسانی اور معلومات کے حصول کا ایک سستا، برق رفتار اور جدید ذریعہ ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے کثیر الاستعمال ذریعہ بھی موجودہ دور میں یہی ہے۔ میسیج کے ذریعے لوگ، جس وقت چاہیں جس کو چاہیں اور جس کے بارے میں چاہیں بلا روک ٹوک، ہر قسم کی بات بے دھڑک بھیج سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ویب سائٹس اور اس کے استعمال کی تو کچھ قانونی حد بندیاں کی گئیںہیں لیکن ہمارے علم کے مطابق میسیج میڈیا پر ابھی تک ایسی کوئی خاص قانونی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔ لیکن کیا شرعی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے بھی اس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ؟ یہ ایک سوال ہے۔ جس کا جواب نفی میں ہے۔
    شرعی نقطۂ نظر سے میسیج، گفتگو خبررسانی اور معلومات کو کو منتقل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اس کی بھی وہی اصول و ضوابط ہیں جو عام زندگی میں گفتگو، خبر رسانی اور تحصیل علم کے ہیں۔ وہ اصول اور میسیج میڈیا پر ان کی تطبیق کچھ یوں کی جائے گی:
۱۔     بلا تحقیق اطلاع اور معلومات کو آگے منتقل کرنا درست نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو (بلا تحقیق اس کو درست سمجھ کر اس کے مطابق اقدام نہ کرو، بلکہ پہلے اس کی) خوب تحقیق کر لیا کرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ (بلا تحقیق اقدام کی بنا پر) کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر (حقیقت معلوم ہونے کے بعد) اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔‘‘
     (الحجرات: آیت ۶)
ارشاد نبوی ہے:  ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو (بلا تحقیق) آگے نقل کردے۔‘‘
(مسلم شریف: ۱/۸ طبع قدیمی)
    مذکورہ نصوص شرعیہ کی رو سے میسیج کا استعمال کرنے والے ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت، ادارے، تنظیم، فرقے اورکمیونٹی  کے خلاف کوئی اطلاع موصول ہونے پر بلا تحقیق اس کو آگے نہ بھیجے! قرآن، حدیث اور شرعی احکامات کو بلا تحقیق آگے بھیجنا تو اور زیادہ قبیح بات اور بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ جب دنیوی اطلاع کی اشاعت کے لیے تحقیق کی قید لگائی گئی ہے تو دینی معلومات کی ترویج کے لیے اس شرط کی وقعت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
۲۔     نامعلوم، غیر مستند اور اہل بدعت سے علم کے حصول اور ان کی دی گئی اطلاعات پر اعتماد کرنے سے شریعت نے احتیاط کا حکم دیا ہے۔
    مشہور تابعی حضرت محمد بن سیرین رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:  ’’یقین جانو! یہ علم ہی دین ہے، اس لیے پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔‘‘
(مسلم شریف: ۱/۱۱ طبع قدیمی)
    امام ابن سیرین کا ہی قول ہے:    ’’جب دین کے بارے میں لوگوں کی جرأت بڑھنے لگی تو اسلاف نے تحقیق کا یہ ضابطہ مقرر کر دیا کہ بتائو تم نے یہ حدیث کس سے حاصل کی ہے؟ اگر وہ شخص اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا حامل ہوتا تو اس کی حدیث لے لی جاتی اور اگر اہل بدعت میں سے ہوتا تو اس کی حدیث رد کر دی جاتی۔‘‘
(مسلم شریف: ۱/۱۱)
    حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’اسناد (حدیث کی سند بیان کرنا) بھی دین کا حصہ ہے۔ اگر سند نہ ہو تو ہر آدمی دین کے معاملے میں اپنی من مانی بات بیان کرتا پھرے۔‘‘
(صحیح مسلم: ۱/۱۲)
    لہٰذا میسیج، نیٹ، ٹی وی چینلز، اخبارات،  کتاب اور کسی بھی ذریعۂ علم سے استفادہ کرتے ہوئے احتیاط کے ان تقاضوں کو ضرور ملحوظ رکھا جائے۔
     اشاعت دین کا جذبہ رکھنے والے افراد اور ادارے دینی معلومات سے متعلق کوئی ایسا مواد ہرگز آگے نہ بھیجیں جو تحقیق کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو یاجو غیر معروف اور غیر معتبر ذریعے سے موصول ہوا ہو۔
۳۔     عام زندگی میں جس طرح فحش گوئی اور فحاشی کی اشاعت منع ہے، جدید ذرائع ابلاغ میں بھی شریعت کی رو سے ان چیزوں پر پابندی عائد ہوگی۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلنے کے خواہش مند ہیں ان کے لیے سخت تکلیف دہ عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔‘‘                (النور: ۱۹)
۴۔     عمومی زندگی میں جیسے کسی کو بلا وجہ ایذاء دینا جائز نہیں، جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی کسی کو بلاوجہ تنگ کرنا اور زک پہنچانا جائز نہیں۔  
حدیث نبوی ہے: ’’مسلمان کہلانے کے لائق وہی ہیں جس کی زبان اور ہاتھ کی شرارتوں سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘  (مشکوٰۃ شریف)
۵۔     کسی شخص کو اس کی اجازت کے بغیر ایسے وقت میسیج کرنا جو عام طور پر اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو۔ بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں۔ کیونکہ اس سے بھی مسلمان کو ایذاء دینے کی قباحت لازم آتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں