معاملات کے بارے میں اسلام کا مزاج

اسلام کے قوانین معاشرے کے پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ قانون کا مزاج خشک ہوتا ہے۔ ان دو اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بے شمار شعبوں میں سے آج ہم معاملات کے بارے میں اسلامی قانون کے مزاج پر نصوص شرعیہ کی روشنی میں نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام نے معاملات میں مصلحت عامہ اور انصاف کی رعایت کو بنیادی اہمیت دی ہے اور اسی کو معاملات سے متعلق تمام تصرفات کی بنیاد قرار دیا ہے۔

زیر نظر نصوص کے مطالعے کی روشنی میں آپ اگر جائزہ لیں کہ اسلام لوگوں کے معاملات میں کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو آپ کو صاف نظر آ جائے گا کہ وہ ان میں کس طرح اپنے آسمانی مزاج کی روح پھونک دیتا ہے۔ وہ خشک قانونی عبارتوں کو اخلاق و ادب کی نصیحتوں اور ہدایتوں میں ڈھال دیتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ معاملات کا انحصار مصلحت عامہ پر رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس چیز کو کچھ لوگ ماننا چاہیں، اسے نیک عمل قرار دے دیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ اسلام نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا ہے، جیسے: سود یا زنا، اسے انسانی مفاد و مصلحت کی چیز نہیں تسلیم کیا جا سکتا۔ اسی طرح دونوں فریقوں کی رضا مندی بھی ان برائیوں کو جائز نہیں بنا سکتی، چاہے تمام دنیاوی قوانین اسے جائز قرار دینے لگیں۔ یہ بات پہلے کہی جا چکی ہے کہ دینی احکام معاشرے کے پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں یہاں ہم صرف دو پہلوؤں کا ذکر کریں گے، جن سے سارے معاملات میں اسلامی چھاپ اور رنگ کی نوعیت واضح ہو جائے گی۔ کچھ معاملات خرید و فروخت، لین دین، رہن اور قرض وغیرہ کاروباری امور سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ معاملات جنگ و امن، دعوت، قبول و انکار اور صلح وغیرہ سیاسی امور سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں قسم کے معاملات کے سلسلے میں بہت سی احادیث مروی ہیں: 
1 حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں بیچنے کے لیے کوئی سامان رکھا اور اس کے بیچنے کے سلسلے میں قسم کھائی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ فرمایا: ’’جو لوگ اللہ کی قرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول لے لیتے ہیں، ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ قیامت کے دن ان سے نہ اللہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (آل عمران: 77) 
2 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو کوئی غذائی جنس بیچ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت کیا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے دام پوچھے، اس نے بتا دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو اسے پانی سے نم پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: کیا: یہ کیا معاملہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بارش کا پانی پڑ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو اسے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جس نے فریب کاری کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ابو داؤد، مسلم) 
3 حضرت حکیم بن حزام رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’خرید و فروخت کرنے والے جب تک الگ نہ ہو جائیں انہیں (سودا منسوخ کرنے کا) اختیار باقی رہتا ہے۔ اگر دونوں سچائی سے کام لیں گے تو ان کے سودے میں برکت ہو گی۔ اور اگر جھوٹ بولیں گے اور چھپائیں گے تو اس کی برکت مٹا دی جائے گی۔‘‘ (بخاری) 
4 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’باہر (دیہاتوں) سے سودا لے کر بیچنے آنے والے سواروں سے (شہر کے باہر ہی) نہ ملو اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیچے (یعنی دلالی نہ کرے۔‘‘ (مسلم) 
5 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایسا سخت زمانہ آئے گا جب خوش حال لوگ اپنی دولت سمیٹتے رہیں گے، جب کہ انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور آپس میں احسان کرنا نہ بھلا دو‘‘ (البقرۃ: 732) 
6 اسی طرح مجبوری کی حالت میں خریداری ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجبور آدمی کی طرف سے فروخت کو منع فرمایا۔ (ابوداؤد) یعنی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر یا اسے مجبور کر کے اس کا سامان کم قیمت پر نہ لیا جائے۔ 
7 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ (مسلم) 
8 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں رواج یہ تھا کہ کجھور کی فصلیں ایک ایک دو دو سال پہلے سے بیچ دی جاتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت دی کہ مقررہ وزن، مقررہ قیمت اور مقررہ مدت کے ساتھ سودا کیا جائے۔ (ابو داؤد) 
بلا تبصرہ قارئین کی خدمت میں یہ روایات پیش کی جارہی ہیں، اس دعوت کے ساتھ کہ آپ ان کو بغور پڑھ کر دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری یہ دستک کہ معاملات کے اسلامی قوانین مصلحت عامہ اور انصاف پر مبنی ہیں، درست ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں