معاشرے کی تعمیر میں ذرائع ابلاغ کا کردار

ذرائع ابلاغ کسی بھی انسانی معاشرے کا لازمی جزو ہیں۔ انسان کو اﷲ رب العزت نے معاشرتی فطرت عطا کی ہے لہٰذا اس کو زندگی کے ہر پہلو میں دوسرے انسان سے رابطے کی ضرورت پڑتی ہے اس رابطے کے لیے آلے کا کام ذرائع ابلاغ ادا کرتے ہیں۔ احساسات و جذبات کا اظہار ہو یا پیغامات کا تبادلہ ہو، افکار و نظریات کاپرچار ہو یا افعال کی عملی مشق ہو ذرائع ابلاغ ہی کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا ارتقا مستحکم بنیادوں پر اسی وقت ممکن ہے جب اس کے ذرائع ابلاغ مضبوط اور مستحکم ہوں۔

ذرائع ابلاغ کا تعارف:

ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام وسائل و ذرائع ہیں جو انسان اپنے پیغامات کو دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اﷲ رب العزت نے انسانی جسم میں پیغامات کے وصول کرنے کے لیے بنیادی طور پر دو ذرائع پیدا کیے ہیں ’’سمعی‘‘ اور ’’بصری‘‘ لہذا ذرائع ابلاغ میں وہ تمام طریقے شامل ہونگے جو سمعیات کی قبیل سے ہوں یا بصریات کی قبیل سے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں دیگر شعبوں کی طرح ذرائع ابلاغ نے بھی بہت ترقی کی ہے۔ نت نئی ایجادات نے ابلاغ عامہ کو بہت تیز رفتار کردیا ہے پیغامات کا تبادلہ مہینوں اور دنوں سے کم ہوتے ہوتے لمحات تک آچکا ہے آج ہر شخص دوسرے سے ایک بٹن دبانے کی دوری پر ہے یہ سب ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ثمرات ہیں۔ آج دنیا کے ایک کونے میں ہونے والا واقعہ لمحوں میں دوسرے کونے کے لیے خبر بن چکا ہوتا ہے۔

اسلام اﷲ رب العزت کا آخری پیغام اور قیامت تک کی انسانیت کے لیے فلاح کا ضامن ہے لہٰذا اس پیغام کو آخری انسان تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہر مسلمان کے ذمہ لگائی گئی۔ چنانچہ اسلام نے اس کار تبلیغ کی بجا آوری کے لیے نہ صرف ذرائع ابلاغ کے استعمال کی ترغیب دی بلکہ ایک مسلم معاشرے میں ان وسائل کے استعمال کے آداب اور مبلغین کے اوصاف بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مبلغ اعظم w کی صورت میں عملی نمونہ بھی دکھا دیا تاکہ طریقہ تبلیغ اور آداب تبلیغ کا کوئی گوشہ بھی مبہم نہ رہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے زمانے کے مروجہ ہر ذریعہ ابلاغ کو کار تبلیغ کے لیے استعمال فرما کر یہ واضح فرما دیا خدا کے آخری پیغام کو تمام عالم میں پہنچانے کے لیے تمام دستیاب وسائل کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ مقصود بھی ہے۔

ذرائع ابلاغ اور اسلام:

کسی بھی انسانی معاشرے میں ذرائع ابلاغ کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک اس معاشرے میں ذرائع ابلاغ کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم نہ ہوں۔ بنی آدم کی ابتداء سے اﷲ رب العزت نے اس کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے پیغامات کا سلسلہ جاری فرمایا اور اپنے مقرب بندوں کی یہ ذمہ داری سونپی کے وہ خالق اور مخلوق کے درمیان تبلیغ احکامات کے فرائض سر انجام دیں اور مخلوق خدا کو خدا کی پہچان کروائیں تاکہ انسانیت اپنے خالق و مالک کے احکامات کی بجا آوری کر سکے چنانچہ ارشاد فرمایا ’’وان من امۃ الا خلافیھا نذیر‘‘

دوسری جگہ فرمایا: ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ‘‘

ایک اور جگہ فرمایا: ’’ وما علی الرسول الا البلاغ المبین۔‘‘

معاشرے میں ذرائع ابلاغ کا کردار جتنا مضبوط، واضح اور مؤثر ہوگا معاشرہ اتنی ہی تیز رفتاری سے ترقی کرے گا۔ انبیاء کرام علیہ السلام ہر معاشرے میں سب سے زیادہ مضبوط اعلیٰ اور مؤثر کردار کے مالک ہوتے تھے۔ لہٰذا معاشرے کے افراد پر فکری اور عملی ہر جہت سے اثر انداز ہوتے، تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں انبیاء کرام کے کردار و اخلاق پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ انبیاء کرام معاشرے کی تربیت  افراد کی کردار سازی اور معاشرے کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کی اصلاح کی ذمہ داری کے ساتھ مبعوث ہوتے تھے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ ان کا اپنا کردار ان کے نظریات ان کے اخلاق و افعال پورے معاشرے پر فوقیت رکھتے ہوں۔ پھر انبیاء کرام تک پیغامات کے پہنچانے کے لیے جس ذریعے کا انتخاب فرمایا وہ بھی اتنا مضبوط اور قابل اعتماد کے خبر میں کسی قسم کی ردو بدل کا امکان نہیں۔ فرمایا ’’نزل بہ الروح الامین‘‘۔

ذرائع ابلاغ کی اہمیت:

ذرائع تبلیغ میں اتنا زیادہ اہتمام ثابت کرتا ہے کہ ان ذرائع کی فی نفسہ حیثیت معاشرے کے ارتقاء میں مسلم ہے۔ یہ ذرائع معاشرے پر اتنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جن کی بنا پر کسی بھی معاشرے کی فکری، نظری، عملی، سیاسی اور معاشرتی بنیادیں قیام پذیر ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا ذریعہ ابلاغ اس معاشرے کے خدوخال کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے بشرطیکہ وہ ذریعہ ابلاغ بذات خود درست بنیادوں پر قائم ہو وگرنہ وہ معاشرے کی تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بن سکتا ہے۔

کسی ملک کا نظام ابلاغ اس ملک کے معاشی، معاشرتی، جغرافیائی اور سیاسی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اہمیت بھی ہر معاشرے میں مسلم ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ صرف فرد کی تربیت میں معاون و مددگار ہوتے ہیں بلکہ ملکی حالات، صنعت و تجارت، صحت و امن اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرنے میں اہم اور مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے آداب:

کوئی بھی معاشرتی ادارہ معاشرے میں مثبت کردار اسی وقت ادا کرسکتا ہے جبکہ وہ مثبت سوچ، تعمیری طرز عمل اور قومی فلاح پر مبنی نظریہ کا حامل ہو۔ کسی بھی ادارے کے مثبت اثرات کا حامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا لازمی کردار منفی سوچ اور سرگرمیوں سے محفوظ ہو۔ ذرائع ابلاغ ایک اہم معاشرتی ادارہ ہے۔ معاشرے پر اس کے اثرات کا انکار بدیہیات کے انکار کے مترادف ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کے اصول و ضوابط اور حدود و قیود اسی بنیاد پر قائم ہوں جن کی بدولت ادارے کا ہر عمل تعمیری اور مثبت نتائج کا حامل ہو کسی بھی ادارے کے اصول و ضوابط اور آداب کا دارومدار اس کے مقاصد پر ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا مقصد معاشرے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کے افراد کی تربیت اور معاشرے میں نظریاتی اور عملی سوچ کو پروان چڑھانا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اﷲ رب العزت کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبر یعنی انبیاء کرام کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہوا کرتا تھا۔ انبیا کرام ایک طرف شرک و بدعات سے پاک توحید کے علمبردار معاشرے کی تعمیر کرتے تھے دوسری جانب اس کے افراد کی ایسی نظریاتی تربیت فرماتے تھے جس کی بدولت معاشرے کے افراد احکامات الٰہی کی بجا آوری کے لیے ہمہ تن تیار رہتے تھے۔ ان کی نظریاتی تربیت ان کو ہر وقت عمل کے لیے تیار رکھتی تھی۔

مبلغین کی ذمہ داری:

اگر انبیاء کے انداز تبلیغ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پختہ نظریاتی تربیت میں سب سے بنیادی چیز ان کا اپنا کردار تھا۔ ایک ایسا بے داغ اوربلند کردار جو ہر طرح کی خیانت، جھوٹ، عیب جوئی، الزام تراشی اور افراط و تفریط سے پاک تھا۔ چنانچہ ان سے حاصل ہونے والی خبریں حقیقت پسند دماغوں کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیتی تھیں۔ ان کا یہ کردار معاشرے میں حق اور سچائی کا استعارہ بن چکا ہوتا تھا۔ چنانچہ ان سے صادر ہونے والی بن دیکھی خبروں کو قبول کر لینا معاشرے کے لیے مشکل نہ تھا۔

ابلاغ کا فریضہ انجام دینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انبیاء کرام کی زندگی کا بغور مطالعہ کرکے ایسے اوصاف کو اپنانے کی کوشش کریں جن اوصاف کی بدولت معاشرے میں تعمیری کردار ادا کر سکیں۔ خاص طور پر ان آداب کی رعایت کرنا جن کے ذریعے معاشرہ انتشار، افتراق، بے سکونی، بے یقینی کی کیفیت سے محفوظ رہ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں