محمد نام رکھناصحیح ہےیانہیں

فتویٰ نمبر:392

سوال :کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ کےبارےمیں  کہ “محمد”نام رکھناصحیح ہےیانہیں ؟

کیونکہ بعض لوگ کہتےہیں کہ صرف محمدنام رکھناصحیح نہیں کیونکہ جس شخص کانام  محمد ہواور بعدمیں وہ غیرمہذب حرکت کرےتویہ مناسب نہیں ،برائےمہربانی ہماری راہنمائی فرمائیں ؟ جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں ؟    

       

الجواب حامدا   ومصلیا

   واضح رہےکہ احادیث ِ طیبہ میں اپنی اولاد کےاچھےاوربامعنی ٰنام رکھنےکاحکم وارد ہواہےاوربعض مخصوص ناموں کوپسند بھی کیاگیاہے۔

چنانچہ روایت میں آتاہے:

  مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي بيروت (3 / 33)

وعن أبي الدرداء قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسمائكم  ،

            دیگریہ کہ تجربہ اورمشاہدہ اس بات کاگواہ ہےکہ انسان کواگراسکی صحبت اوراس  کے گردوپیش کا ماحول اورحالات اسکوبےراہ روی کےراستہ اورغیرمستقیم راہ پرڈالنےمیں اپنا کردارادانہ کریں تو ہراچھے نام کااثرانسا ن کی شخصیت پرپڑتاہے۔

            لہذااگرکوئی شخص نبی اکرم ﷺکےنام نامی سےاستبراک کرتےہوئےاپنےبچہ کا نام “محمد”رکھتاہےاوراس نام کےساتھ اورکوئی نام نہیں   ملاتاتوبلاشبہ یہ اقدام نہ صرف یہ کہ جائزبلکہ  امرمستحسن ہے (۱)

حدیث شریف میں نبی کریم ﷺکاتمام انبیاءکےناموں پراپنی  اولاد کےنام رکھنےکاحکم استحبابی وارد ہواہےجس میں آپ ﷺکی اپنی ذات بابرکات کاشمار سرفہرست ہےکہ آپ ﷺافضل الرسل واشرف الانبیاءہیں۔

 چنانچہ ارشادہے:

مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي بيروت (3 / 36)

وعن  أبي وهب الجشمي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” تسموا أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن وأصدقها حارث وهمام أقبحها حرب ومرة ” . رواه أبو داود

   ایک دوسری روایت میں رسول اکرمﷺنےاپنےنام نامی پرنام رکھنےکی صراحت سےبھی اجازت  مرحمت فرمائی ہے۔

چنانچہ مروی ہے:

مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي بيروت (3 / 29)

وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي فإني إنما جعلت قاسما أقسم بينكم ” متفق عليه

باقی جہاں تک بعض لوگوں کےشبہ کاتعلق ہےجوسائل نےذکرکیاہےتواول تویہ بات اورشائبہ  ہراچھےاوربامقصد نام رکھنےمیں ہوسکتاہے دوم یہ کہ اچھےاورعمدہ نام بجائے خودمستقبل کےاچھااورپاکیزہ ہونےکی امید کرتےہوئےتفاؤلاً ہی رکھےجاتےہیں  سوم یہ کہ اگروالدین کسی بچہ کانام“محمد”رکھ دیں اورپھرخدانخوستہ اس سےماحول اورحالات کےاثر اندازہونےکےباعث کوئی نامناسب عمل سرزدہوجاتاہےتواس کی ذمہ داری والدین پرنہیں   آتی اگروالدین کی طرف سےاس بچہ کی تربیت میں کوئی غفلت اورکوتاہی سرزدنہ ہوئی ہو تاہم اگرکوئی شخص اس ذہنیت سےکہ اگر “محمد”نامی بچہ مستقبل میں کوئی غلط غیرمہذب حرکت کرتاہےاورپھراس کی اس حرکت اوربرےعمل کی نسبت اسم ِمحمد کی طرف ہوگی جسکی بناءپرسروردوعالمﷺکےنام نامی ،اسم گرامی کی ہتک اورتوہین  کی صورت  ہوگی تویہ بھی ایک ذوقی نظریہ ہےجوبلاشک وشبہ قابل ِ قدرہے

 (۱)بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية – (5 / 30)

وَمَا رُوِيَ{أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ قَالَ سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي} فَقِيلَ مَنْسُوخٌ لِأَنَّهُ سَمَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ ابْنَهُ مُحَمَّدًا وَكَنَّاهُ أَبَا الْقَاسِمِ بِإِذْنِهِ وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لَهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ سَمَّيْت ابْنِي مُحَمَّدًا وَكَنَّيْته أَبَا الْقَاسِمِ وَذُكِّرْت أَنَّك تَكْرَهُ ذَلِكَ فَقَالَ أَمَّا الَّذِي حَرَّمَ كُنْيَتِي أَحَلَّ اسْمِي وَأَمَّا الَّذِي أَحَلَّ اسْمِي حَرَّمَ كُنْيَتِي وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ مَنْ سُمِّيَ بِاسْمِ الرَّسُولِ أَكْرَهُ أَنْ يُكَنَّى بِكُنْيَتِه

الفقه الإسلامي وأدلته    وهبة الزحيلي – (4 / 290)

 وأفضل الأسماء: عبد الله ، وعبد الرحمن، لخبر مسلم: «أحب الأسماء إلى الله تعالى: عبد الله ، وعبد الرحمن» ، زاد أبو داود: «وأصدقها: حارث وهمام، وأقبحها: حرب ومرة» . ومثل ذلك كل ما أضيف إلى أسماء الله الحسنى. ومثله أسماء الأنبياء أو الملائكة لحديث: «تسموا باسمي، ولا تكنوا بكنيتي» . قال مالك: سمعت أهل المدينة يقولون: «ما من أهل بيت فيهم اسم محمد، إلا رزقوا رزق خير». فالتكني بأبي القاسم حرام. وتكره الأسماء القبيحة، كشيطان وظالم وشهاب وحمار وكليب

اپنا تبصرہ بھیجیں