محمدنام رکھنا

محمدنام رکھنا:

سوال :کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ کےبارےمیں  کہ “محمد”نام رکھناصحیح ہےیانہیں ؟

بعض لوگ کہتےہیں کہ صرف محمدنام رکھناصحیح نہیں کیوں کہ جس شخص کانام  محمد ہواور بعدمیں وہ غیرمہذب حرکت کرےتویہ مناسب نہیں ،برائےمہربانی ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں!

جواب:

   تجربہ اورمشاہدہ گواہ ہےکہ انسان کواگراس کی صحبت ، اس کے گردوپیش کا ماحول اورحالات بےراہ روی کے راستے پرڈالنےمیں اپنا کردارادانہ کریں تواس کے اچھے نام کا اس کی شخصیت پرضروراثرپڑتاہے۔ظاہر ہے نبی کریم حضرت محمدﷺ سے بڑھ کر کون سا نام اچھا ہوسکتا ہے!اس لیےاگرکوئی شخص نبی اکرم ﷺکےنام نامی سے برکت حاصل کرتےہوئےاپنےبچے کا نام “محمد”رکھتاہےاوراس نام کےساتھ اورکوئی نام نہیں ملاتاتوبلاشبہ یہ اقدام نہ صرف یہ کہ جائزبلکہ لائق تحسین عمل ہے۔

   یہ تو نام محمد جائز ہونے کی عقلی توجیہ ہے، جہاں تک بات ہے حدیث کی تو احادیث مبارکہ سے بھی نام محمد رکھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، ملاحظہ کیجیے:

  • حدیث شریف میں انبیاءکےناموں پراپنی  اولاد کےنام رکھنےکاحکم استحبابی وارد ہواہے(یعنی انبیائے کرام کے نام پر اپنی اولاد کا نام رکھنے کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیاہے اور اسےاچھا عمل قراردیا گیا ہے)ظاہر ہے کہ انبیائے کرام کے ناموں میں آپ ﷺکا اپنا نام بابرکات کاشمار سرفہرست ہے کیوں کہ آپ ﷺافضل الرسل واشرف الانبیاءہیں۔

عن  أبي وهب الجشمي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” تسموا أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن وأصدقها حارث وهمام أقبحها حرب ومرة ” . (مشكاة المصابيح:3/36، الناشر : المكتب الإسلامي بيروت)

  (2)  ایک دوسری روایت میں رسول اکرمﷺنےاپنےنام نامی پرنام رکھنےکی صراحت سےبھی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔

چنانچہ مروی ہے:

عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي فإني إنما جعلت قاسما أقسم بينكم” (مشكاة المصابيح :3/29،الناشر : المكتب الإسلامي بيروت)

مشہورفقیہ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح  اور قوی بات یہی ہے کہ محمد اور احمد نام رکھنا سب سے بہتر ہے، کیوں کہ آنحضرتﷺ سب سے افضل اور  آخری نبی ہیں اوریقینا اللہ تعالی نےاپنے سب سے محبوب اور سب سے افضل نبی کا نام سب سے محبوب اور سب سے افضل ہی چنا ہوگا۔

“وَتَفْضِيلُ التَّسْمِيَةِ بِهِمَا (أَيْ بعَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ) مَحْمُولٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ التَّسَمِّيَ بِالْعُبُودِيَّةِ، لِأَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ عَبْدَ شَمْسٍ وَعَبْدَ الدَّارِ، فَلَا يُنَافِي أَنَّ اسْمَ مُحَمَّدٍ وَأَحْمَدَ أَحَبُّ إلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ جَمِيعِ الْأَسْمَاءِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْتَرْ لِنَبِيِّهِ إلَّا مَا هُوَ أَحَبُّ إلَيْهِ هَذَا هُوَ الصَّوَابُ”( رد المحتار :6 / 417)

باقی جہاں تک اس شبہ کاتعلق ہےجوسائل نےذکرکیاہےتو

اول تویہ شبہ تو ہراچھےاوربامقصد نام رکھنےمیں ہوسکتاہے۔

دوسرا، یہ کہ اچھےاورعمدہ نام  خود بچے کے بہتر اور پاکیزہ مستقبل کی امید کرتےہوئے نیک فالی کے طور پر ہی رکھےجاتےہیں۔

تیسرا، یہ کہ اگروالدین کسی بچہ کانام“محمد”رکھ دیں اوروالدین کی طرف سے بچے کی تربیت میں کوئی غفلت اورکوتاہی نہ ہوئی ہو پھربھی خدانخوستہ ماحول اورحالات کےاثر سےاس کی طرف سےکوئی نامناسب عمل سرزدہوجاتاہےتواس کی ذمہ داری والدین پرنہیں آتی۔

 تاہم اگرکوئی شخص اس نظریے سےکہ اگر “محمد”نامی بچہ مستقبل میں کوئی غلط اورغیرمہذب حرکت کرتاہےاورپھراس کی اس حرکت اوربرےعمل کی نسبت اسم ِمحمد کی طرف ہوگی جس کی بناپرسروردوعالمﷺکےنام نامی ،اسم گرامی کی ہتک اورتوہین  کی صورت  ہوگی تویہ بھی ایک ذوقی نظریہ ہےجوبلاشک وشبہ قابل ِ قدرہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں