مختلف النوع تقریبات کے لیے ہال کرایے پر دینا

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:74

شادی ہال کی اصل وضع اورشادی ہال فراہم کرنے کا اصل مقصد ا س میں ناچ گانے ،میوزک ،نامحرم مردوعورتوں کا مخلوط اجتماع یا بے حیائی وغیرہ ناجائز امور کی سہولت فراہم کرنا نہیں ، بلکہ ا س کا اصل مقصد لوگوں کو شادی ولیمہ وغیرہ کی تقریبات انجام دینے کے لیے ایک جگہ ( پل وغیرہ کی شکل میں ) فراہم کرنا اور ان کے لیے تقریبات کی سہولت فراہم کرنا ہے ۔ تاہم مشاہدہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے تقریبات کے دوران بعض منکرات وفواحش کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔بعض لوگ منکرات سے اجتناب کرتے ہوئے وہاں تقریبات انجام دیتے ہیں گویا دور حاضر میں شادی ہال کےجائز وناجائز دونوں استعمال ہیں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ اگر سوال میں مذکور خدشات کی بنیاد پر مذکور کام نہ کریں تو بہتر اور تقویٰ کی بات ہے ۔لیکن چونکہ شادی ہال فراہم کرنے کی اصل حیثیت محض ایک ذریعہ کی ہے اور ناجائز کام کرنے کا سارا دارومدار کام کرنے والے ( جوکہ فاعل مختار ہے ) پر ہے ،ا س لیے شادی عقیقہ ،ولیمہ وغیرہ کسی بھی جائز تقریب کے لیے شادی ہال فراہم کرنا فی نفسہ جائز اور اس سے حاصل شدہ آمدنی بھی جائز ہے ،حرام نہیں ۔

البتہ موجودہ صورت حال کو مد نظررکھتے ہوئے شادی ہال فراہم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شادی ہال فراہم کرنےو الا ازخود ایسی کوئی سہولت فراہم نہ کرے جو ناجائز یا غیر قانونی کاموں ( مثلا شراب نوشی وغیرہ) کا براہ راست اور بلاواسطہ ذریعہ بنے ، بلکہ وہ ہر ممکن ایسی تدابیر اختیار کرے جن کی موجودگی میں وہاں ناجائز اور غیرقانونی کام کرنے کی اجازت نہیں ،ا س صورت میں ہال فراہم کرنے والا ناجائز کام کے مرتکب لوگوں کے کسی ناجائز کام کاذمہ دار نہ ہوگا بلکہ شرعاً جائز کام کا اصل ذمہ دار وہی شخص ( فاعل مختار ) ہوگا جوا س ناجائز کام کا ارتکاب کررہاہو۔ تاہم جن لوگوں کے بارے میں پہلے سے علم ہو کہ وہ ناجائز کام بھی وہاں انجام دیں گے ان کو اپنا ہال کرایہ پر نہ دیتا توتقویٰ کے زیادہ قریب اور اولیٰ ہے ۔

قال فی جواہر الفقہ : 2/252) 

احقر شاہ محمد تفضل علی 

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/555026038199979/

اپنا تبصرہ بھیجیں