نبی کریم ﷺکی اتباع

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم،  امّابعد!

 قُلْ اِنْ کُنْتُمْ  تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ  فَاتَّبِعُوْنِیْ  یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط  وَاللّٰہُ  غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ O  قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَO

                                                    سورۃ اٰل عمران، پارہ: ۳،  آیت: ۳۱-۳۲

محبت ایک مخفی چیز ہے:

            ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرواور میرے طریقے پر چلو۔ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا یعنی تمہیں اس اتباع کا بدلہ عطافرمائے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اللہ تو بخشنے والے ہیں رحم والے ہیں۔ گویا اللہ کے نبی ﷺکی اتباع اللہ کی محبت کی دلیل ہے۔

             محبت ایک مخفی چیز ہے دل سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس کا معیار اور اس کی علامت یہ بتائی کہ اللہ کے نبیw کا اُسوہ کوئی جتنا اپنائے گا اتنا ہی اللہ سے محبت کے دعوے میں سچا ہوگا۔ اگر اتباع نہیں تو درحقیقت محبت نہیں۔ جب انسان نے اس محبت کا اعلان اپنے عمل سے کردیاتو اس کے بدلے میں اللہ اپنی عظمت بندے کے دل میں بٹھا دیتے ہیں اور ا س کو اس پر اجر عطا فرمادیتے ہیں اور لازمی بات ہے اللہ جس سے محبت کریں گے وہ وہی ہوگا جو گناہوں سے پاک صاف ہوگاتو اللہ گناہوں سے پاک کردیں گے۔ اگر تمہاری بخشش نہیں ہوئی تو قصور تمہارے اتباع میں ہے، تمہارے عمل میں ہے، قصور تمہارا اپنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والے ہیں، مہربان ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے منہ پھیرنے والا، لازمی بات ہے مسلمان تو ہوسکتا نہیں وہ کافر ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ مسلمان رسول اللہﷺ کی اطاعت سے روگردانی نہیں کرسکتا ۔ اس لیے فرمایا :  جو منہ پھیرے تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

آپﷺسے زیادہ حسن کسی کا نہیں :

            میرے محترم دوستو! ربیع الاوّل میں اللہ کے نبی ﷺسے بڑی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے  جلسے ہوتے ہیں، مذاکرے ہوتے ہیں، نعتوں کی محافل ہوتی ہیں، قمقمے لگتے ہیں، جھنڈے لگتے ہیں لیکن اس علامت سے اکثر ہم خالی ہوتے ہیں جوعلامت اللہ کی محبت کی بتائی ہے، جو نبی کی اتباع اور اس کے اُسوہ پر عمل کرنے کی ہے۔ خطیب دو گھنٹے وعظ  کردیں گے، لیکن عمل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کورے ہوتے ہیں۔ اسی طرح شاعر، نعت خواں جھوم جھوم کر اللہ کے نبی ﷺکی خدمت میں ہدیۂ نعت پیش کرے گا لیکن اس کی عملی کیفیت کو دیکھا جائے تو اس کا اپنا چہرہ سنتِ رسول ﷺسے خالی ہوتا ہے۔ نعت پڑھنے والے کو روضۂ اقدس پر نعت پڑھتے ہوئے دیکھا کہ جھو م جھوم کر نعت پڑھ رہاہے لیکن حضور ﷺجیسی شکل سے خالی ہے۔

            میر ے دوستو! اس لیے یہ با ت یاد رکھیئے کہ ایک نبی کی صورت ہے ایک نبی کی سیرت ہے۔ صورت کا بیان کرنا،صورت کے تذکرے کرنا یہ بھی بہت قابل تعریف، موجبِ ثواب ہے لیکن عمل کے اعتبار سے دیکھا جائے تواللہ کے نبی ﷺکی شکل وصورت ایسی چیز ہے جس میں بندے کو کوئی اختیار نہیں کیونکہ حضور ﷺ جیسی شکل وصورت اور آپ جیسا حسن کوئی بنا ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ خود حضرت حسا ن بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:

واحسن منک لم ترقط عینی          واجمل منک لم تلدالنساء

خلقت مبراً من کل عیب          کانک قدخلقت کما تشاء

(شرح دیوان حسان بن ثابت: ص۱)

            آپ ﷺسے زیادہ خوبصورت میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں ہے (آنکھ کیا دیکھتی) آپﷺ جیسا خوبصورت کسی ماں نے جناہی نہیں۔ آپ ﷺہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا یوں سمجھوکہ اللہ نے آپ ﷺکو جیسا آپ ﷺنے چاہا ویسا ہی بنا دیا۔

آپ ﷺکی تشریف آوری کا اصل مقصد :

            میرے دوستو! اس لیے کوئی انسان یہ چاہے کہ نبی جیسی آنکھ ہوجائے، نبی جیسا کان ہوجائے یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ غیر اختیاری چیز ہے، بندے کا اس میں اختیار نہیں۔ اس لیے قرآن پاک میں اللہ نے منع فرمایا ہے کہ اس کی تمناہی نہ کرو جو بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت دی ہے ۔ اس معنی میں حضور w کی صورت کا بیان کرنا، ثواب کی چیز ضرور ہے اور ایک مومن کے لیے وجہ سکون ہے، لیکن جب بھی صورت کا تذکرہ ہوتو اس میں ایک مومن کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ اے اللہ! آپ کے نبی ﷺاتنے خوبصورت تھے کہ ان سے زیادہ کوئی خوبصورت نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان کی ذات سے نکلنے والے اعمال کتنے خوبصورت ہوں گے، کتنے قیمتی ہوں گے۔ آپ مجھے ان اعمال کے اتباع کی توفیق نصیب فرمائیے۔ اس صورت میں گویا صورت کا تذکرہ بھی عمل پر اُبھارنے والا بن جائے گا کیونکہ         نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری سے اصل مقصد یہ ہی ہے کہ ان کی اُمت ان کے طریقوں  پر چلے اور ان کے اعمال کو اپنی عملی زندگی میں لے کر آئے ورنہ ان کی شکل وصورت کی ہم نقل کرہی نہیں سکتے بلکہ یہ ایسی تمنا ہے کہ انسان کو عمل سے دور کردے گی کیونکہ عمل اختیار ی چیز ہے اور یہ چیزیں غیر اختیار ی ہیں۔

صحابہ رضی اللہ  عنہ نے آپ کی عملی زندگی کو بیان کیا:

            اس لیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بیان کی اس کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں بہت کم ملے گا، لیکن وہ چیزیں جن کا تعلق آپﷺ کی سیرت اور عمل سے ہے ان سے کتبِ احادیث بھری پڑی ہیں۔ اس لیے نبی ﷺکی ولادت کے بارے میں بہت سااختلاف مل جائے گا کہ کس تاریخ کو ہوئی لیکن عمل کے اعتبار سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے حضور ﷺ کی زندگی کے ایک ایک رخ کو متعین فرمایا اور اس کو بیان فرمایا۔ حضور ﷺ کھانا کھایا کرتے تھے تو کس طرح بیٹھتے تھے، پلیٹ میں ہاتھ کس طرح ڈالتے تھے ،کس ہاتھ سے کھاتے تھے ،پینے میں کتنے سانس لیتے تھے، شروع میں کیا دُعا پڑھتے تھے، آخر میں کیا دُعا پڑھتے تھے، سوتے وقت شروع میں کیا دُعا پڑھتے تھے، کس کروٹ پر لیٹتے تھے، بیدار ہوتے تھے تو کیا طریقہ اختیار کرتے تھے ، صحابہ رضی اﷲ عہنم نے ایک ایک ادا کو محفوظ کرکے ہم تک پہنچایاہے۔ یہ نبی ﷺ کی وہی سیرت ہے جس کے ہم مکلف ہیں، جس کی اتباع کاہمیں حکم دیا گیا ہے اور قیامت کو اس کی پوچھ ہوگی۔

            خوشی کے اظہار کے طریقے سب آپ کو مبارک ہوں لیکن اگر ہم نبی ﷺ کے لائے ہوئے طریقے اوراُسوہ سے غافل ہوگئے تو کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اللہ کے نبیﷺ جو  رحیم وکریم ہیں وہ اللہ کے حضور ہمارے خلاف  استغاثہ دائر کردیں اور پھر ہم سے کوئی جواب نہ بن پڑے۔ اس لیے مصنوعی طریقوں سے نبیﷺ کی خوشی منانے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ نبیﷺ کے ہرہر عمل کواپنی زندگی میں لاکر اپنی زندگی منورکریں اور اپنے چہرے پر اللہ کے نبیﷺ کی سنت یعنی داڑھی مبارک کولاکر جو اختیاری چیزہے، آپﷺ کی شکل وصورت اور سیرت اپنائیں تاکہ اللہ کے نبی ﷺہمیں پہچان لیں اور ہماری شفاعت اور سفارش کرسکیں۔

            اللہ جل شانہ ہم سب کو نبیﷺ کا اُسوہ اپنا نے کی تو فیق عطا فرمائے۔ ظاہر داری سے بچتے ہوئے اللہ اپنے نبی ﷺسے حقیقی محبت عطا فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں