نمازی کے آگے سے گزرنا

سوال: نمازی کے آگے سے گزرنے کا کتنا گناہ ہے؟
فتویٰ نمبر:315
جواب :نمازی کے آگے سے گزرنا گناہ ہے  کیوں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نمازی کے سامنے گزرنے میں کتنا گنا ہ ہے تو وہ سو سال کھڑا رہنے کو نماز ی کے سامنے گزرنے سے اچھا سمجھا جائے گا۔“

بڑی مسجد میں یا کسی بڑے میدان میں نمازی کے کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ پر اگر نظر ہو تو جہاں تک نظر کی حدود ہیں، ان کے آگے سے گزرنا جائز ہے ، بعض حضرات نے اس کی تحدید دو صف (آٹھ فٹ) کے ساتھ کی ہے البتہ اگر چھوٹی مسجد یا کمرہ ہو یعنی جو چالیس ہاتھ (334.451 مربع میٹر) سے کم رقبہ پر مشتمل ہو تو اس میں نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں۔

کسی آدمی کے گزرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

گزرنے والے کو روکنا جائز ہے مگر نہ روکنا افضل ہے۔

صف کی تکمیل کے لیے اگر کسی نمازی کے سامنے سے گزرنا پڑے تو جائز ہے گناہ نہیں ہو گا۔

گھر یا میدان میں سترہ رکھنا مستحب ہے مسجد میں رکھنا ضروری نہیں ، سترے کی لمبائی کم از کم ایک ہاتھ (دو بالشت) اور موٹائی کم از کم ایک انگلی ہونی چاہیے، سترہ بالکل ناک کے سامنے نہ رکھا جائے بلکہ دائیں یا بائیں آنکھ کے سامنے رکھا جائے  نیز امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ محض سترے کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز قضا کرنا جائز نہیں، نماز وقت پر ادا کی جائے۔ اگر کوئی شخص نمازی کے سامنے بیٹھا ہوا ہے تو دائیں یا بائیں جاسکتا ہے۔ ( کذا فی احسن الفتاوی)

اپنا تبصرہ بھیجیں