ناموس رسالت  ﷺ

چند گزارشات

تحریر:  انس عبدالرحیم

اہل مغرب کی خدمت میں

یوں تو اہل مغرب خود کو بہت انصاف پسند، مہذب اور رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے علمبردار قرار دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مذہب اور بالخصوص اسلام اور شعائراسلام کے ساتھ ان کا رویہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ نفرت اور تعصب پر بھی مبنی ہے۔

اب دیکھیے نا! یہاں دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی توہین رسالت پر رنجیدہ  نالاں اور مشتعل ہے اور ادھر مغرب کو پھر بھی اسے آزادی اظہار رائے قرار دینے پر اصرار ہے۔

 جس اظہار رائے سے دنیا کی چوتھائی آبادی اذیت اور دکھ درد کا شکار ہو  جس تحریر وتقریر سے دنیا کی ایک بڑی آبادی اہانت محسوس کرے مغرب کے لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ اسے آزادیٔ اظہار کے لبادے میں چھپانے کی بجائے دہشت گردی انتہا پسندی اور جرم قراردیتے۔ دنیا بھر میں قانون ہے کہ ایک عام آدمی کی ساکھ خرب کرنا قابل سزا جرم ہے۔ کیا یہ مقام حیرت نہیں کہ ایک عام آدمی کی عزت پر حملہ قابل سزا جرم ہو مگر انبیائے کرام جیسی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری قابل سزا جرم نہ ہو!!! اس لیے مغرب جتنا جلدی اس حوالے سے قانون سازی کرلے اتنا اس کے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ انصاف پسند دنیا مغرب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے پر مجبور ہوگی اور تاریخ ہمیشہ ان کے سینے پر اسلام مخالف، ‘متعصب اور انسانی حقوق کا خیال نہ رکھنے والی قوم کا لیبل چسپاں کردے گی۔

ذرا ایک نظر ریسرچ و تحقیق پر ڈالیے! علمی اور تحقیقی لحاظ سے بھی خاکے بنانے والوں کی حرکت غیرا خلاقی ہے۔ کیونکہ جس مقدس شخصیت پر وہ طعنہ زنی کر رہے ہیں ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ تاریخ کے ا وراق میں موجود ومحفوظ ہے۔ تاریخ اور دنیا فیصلہ دے چکے ہیں کہ محمدeجیسی محترم اور پاکیزہ صفات شخصیت انھوں نے نہیں دیکھی۔ اس کے باوجود ایسی عظیم المرتبت ہستی پر انگلی اٹھانا علمی حقائق کو مسخ کرنا اور تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ کیا پھر بھی مغرب کے لوگ ایسے بدا خلاق اور خاکے باز لوگوں کی حمایت کریں گے؟ کہاں گئی آپ کی علم دوستی؟ کہاں گئے آپ کے اعلی اخلاق واوصاف؟

آپ کو تو چاہیے کہ ایسے موقعوں سے مثبت فائدہ اُٹھائیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا سلوگن سب سے زیادہ آپ کے ہاں ہی لگایا جاتا ہے۔ آپ کو تو چاہیے کہ خاکے بنانے والوں کو خاک میں ملا دیں۔ اس طرح آپ دنیا اور مسلمانوں کی نظر میں خود کو مہذب اور انصاف پسند باور کراسکیں گے۔ اپنی صفوں سے مذہبی جنونیوں کو اپنی صفوں سے نکال کر ثابت کردیں کہ ہم جو کہتے ہیں اس پر خود بھی عمل کرتے ہیں۔ ورنہ دنیا سمجھے گی کہ آپ دوغلے لوگ ہیں- کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں- دوسروں کو جنونی کہنے والے خود خبط اور جنون میں مبتلا ہیں۔

حکمرانوں کے لیے

یہ چند گزارشات تھیں جو مغرب کے لوگوں کے لیے تھیں۔ اس موقع پر کچھ معروضات اسلامی حکومتوں کے سامنے بھی پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ معروضات درحقیقت وہ تجاویز ہیں جو گزشتہ واقعات کے بعد علماء و مشائخ اور قوم کے دانش وروں نے پیش کیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تجاویز پر عملدرآمد ہوگیا تو آئندہ کے لیے یہ المناک واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کے مواقع کی روک تھام ہوجائے گی۔ ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دلوں میں اپنے حکمرانوں کے لیے نیک نامی کا جذبہ پیدا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمانی تقاضوں کی تکمیل کا بہترین سامان فراہم ہوجائے گا۔ تاریخ میں ان مسلم حکمرانوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا جو ان پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تجاویز حسب ذیل ہیں:

1 عالمی عدالت سے رجوع کرکے ایسے مجرموں کو بین الاقوامی مجرم قرار دلوایا جائے۔

2    ان مجرموں کا تعلق جن ممالک سے ہو ان پر سفارتی دباؤ ڈال کر انہیں سے ان مجرموں کو سزا دلوائی جائے۔

3  اسلامی ممالک متحد ہوکر اقوام متحدہ سے آزادی اظہار رائے کے قانون میں ترمیم کروائیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کیا جائے کہ انبیائے کرام کی شان میں گستاخی اظہار رائے نہیں بلکہ منافرت پھیلانے کے زمرے میں آئے گا اور موجب سزا ہوگا۔ 

4   ا گر مذکورہ باتوں پر عمل درآمد نہ ہو تو  اسلامی ممالک ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے گستاخ ملکوں سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں۔

اہل علم کی توجہ کے لیے:

آخر میں اہل علم کے سامنے چند نتائج فکر پیش کرنے کی جسارت کرنے جارہا ہوں۔ اہل علم سے گزارش ہے کہ ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرکے اپنی رائے سے آگاہ کریں:

۱۔  اسلامی اصول ہے کہ جائز بلکہ مستحب امور کو بعض اوقات معروضی حالات اور وقتی عوارض کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے۔ جیسے نبی اکرم e کی قلبی خواہش تھی کہ بیت اﷲ کو منہدم کرکے اسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق بنا دیا جائے۔ لیکن اس اندیشے سے اس پر عمل درآمد نہ کیا کہ قریش مکہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ اس عمل کی وجہ سے ان کے دلوں میں کوئی شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں یا پھر قرآن نے لا تسبوا الذین یدعون من دون اﷲ فیسبوا اﷲ عدوا بغیر علم کہہ کر بتوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا کیونکہ اس سے مشرکین میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور معاملہ اﷲ رسول کو برا بھلا کہنے پر منتج ہوتا ہے۔

۲۔  اسلامی ریاست کے اندرونی معاملات الگ حکم رکھتے ہیں کہ اس میں مسلمان اسلامی احکام کا نفاذ اور اجرا بآسانی کرسکتے ہیں جبکہ غیر مسلم ریاستوں کے احکام و ضوابط جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔

۳۔  ضعف و مجبوری کے زمانے کے احکام جداگانہ ہوتے ہیں اور غلبہ و شوکت کے احکام الگ۔ یتغیر الاحکام بتغیر الازمان۔ سیرت نبوی e میں مکی زندگی اور مدنی دور کے فیصلوں اور رویوں کو آپ مدنظر رکھیں تو یہ اصول مزید واضح ہوجاتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ (معاذ اﷲ) رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کا ارتکاب غیر مسلم ملکوں کے کسی بدباطن اور کوڑھ مغز کافر کی طرف سے پایا جائے تو دنیا کے آئین و قانون میںرہتے ہوئے ہر ایسا اقدام تو اٹھایا جائے جس سے اس مجرم کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ ہوجائے۔ لیکن قانون کو ہرگز ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ یہ اجازت نہ دی جائے کہ غیر مسلم ملک کے اندر تک جا کر گستاخ کو اپنے ہاتھوں واصل جہنم کیا جائے۔ مسلمان ضعف اور کمزوری کی حالت میں ہیں۔ مسلمانوں کے ادنی سے ادنیٰ فعل اور معمولی سے معمولی قانونی کوتاہیوں کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ مشکل ہوجاتا ہے۔ مساجد و مدارس کی حرمت پامال کردی جاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے انفرادی فعل سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا امیج ڈاؤن ہوجاتا ہے۔

دیکھیے! عہدِ نبوی ﷺ میں تئیس (23) کے قریب ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں گستاخان رسول ﷺ کو واصل جہنم کیا گیا۔ لیکن وہ سب یا تو ریاست مدینہ میں پیش آئے یا فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ میں۔

 فتح مکہ سے پہلے بدبختوں نے شان رسالت مآبﷺ میں بار بار گستاخیاں کیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ بھیج کر ان کو قتل نہیں کروایا بلکہ وہ یا تو مسلمان ہوگئے یا پھر قدرت کے بدترین انتقام کا شکار ہوئے۔ اﷲ جل شانہ نے خود اپنے نبی عالی شان کا بدلہ لیا۔

سورۃ الحجر آیت 95 پارہ نمبر 14 میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں:

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ

یعنی اے محبوب! ہم آپ کا مذاق اڑانے اور گستاخی کرنے والوں کے مقابلہ میں کافی ہیں۔ مفسرین کرام نے اس موقع پر پانچ بدبختوں کے نام گنوائے ہیں جو مکی زندگی میں نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کیا کرتے تھے۔

 مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم لکھتے ہیں:

’’مکی زندگی میں جہاں رسول اﷲﷺ کو ایک طرف ہر طرح کی جسمانی و روحانی اذیتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں وہاں دوسری طرف طنز و تمسخر و استہزاء (گستاخیوں) کا بھی ایک بے پناہ طوفان برپا تھا۔ بعض مفسرین ان جزئیات کی طرف چلے گئے ہیں کہ مستھزئین (گستاخی کرنے والے)کون کون تھے اور ان کا طریق استھزاء کیا تھا؟ لیکن جیسا کہ امام المفسرین نے فرمایا ہے مفسر کو اس کا زیادہ کھوج لگانے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ رسول اﷲ ﷺکے زمانے میں ایک پورا طبقہ صاحب اثر و وجاہت مستھزئین کا تھا۔‘‘

(تفسیر ماجدی: ص ۵۷۸ طبع پاک کمپنی)

اس کے علاوہ سورۃ اللہب، سورۃ الکوثر، سورۃ الضحٰی وغیرہ کا پس منظر دیکھ لیا جائے تو بات مزید واضح ہوجائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں