نظریہ بگ بینگ اور اسلام

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۱۵﴾

سوال:-        بگ بینگ کا نظریہ ہے کہ کائنات ایک عظیم دھماکہ سے وجود میں آئی یعنی خودوجود میں آئی۔اس کا کیا جواب ہے؟

سائلہ :امۃ اللہ

رہائش:گلستان جوہر

جواب :-       بگ بینگ،کائنات کی پیدائش کے بارے میں پیش کیا جانے والا ایک سائنسی نظریہ ہےجس کے معنی ایک بڑےیا عظیم دھماکے کے ہیں،اس کے مطابق آج کے دور سے تقریبا 14ارب سال پہلے،جب کائنات کا سارا مادہ ایک نقطے میں بند تھا ،ایک عظیم الشان دھماکہ ہوا تھا،جس سے یہ مادہ پھیلنا شروع ہوا اور مختلف کہکشائیں،ستارے اورسیارے وجود میں آئے۔امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے کائنات کے پھیلاؤکا نظریہ پیش کیااور کہا کہ کائنات عدم سے معرض وجود میں آنے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس نظریے کو مقبولیت حاصل ہوئی اور سائنس دانوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔جہاں تک اسلامی عقیدہ کی بات ہےتو قرآن ہمیں واضح طور کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں بتاتا ہے:

والسَّمَاءَبَنَیْنٰھابایدٍوانَّالَمُوْسِعُوْن۔(ذاریات47)

ترجمہ:ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقینا ہم وسعت پیدا کرنے والے ہیں۔

گویا اس کائنات کی تخلیق اور مسلسل وسعت پذیر ہونا خود بخود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور   اللہ تعالی ہی اس کائنات کو اپنی قدرت سے بنانے والے ہیں۔دنیا میں ہونے والےسب تصرفات اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

لقوله تعالی

{أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (81) إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ } [يس : 81 ، 82]

ترجمہ:اورجس نے زمین آسمان پیدا کیے ہیں کیا وہ قادر نہیں ہےکہ ان جیسے آدمیوں کو دوبارہ پیدا کردے ضرور قادر ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا تو معمول یہ ہے کہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہوجاتی ہے۔

مندرجہ بالا آیتیں ثابت کرتی ہیں کہ کائنات ازل سے نہیں تھی ،بلکہ اس کو اللہ رب العزت نے اپنے ”کن“ سے تخلیق کیا ،اگر ضد وعناد کو ایک طرف رکھ کر انصاف سے دیکھا جائے تو بگ بینگ کانظریہ،ملحدین اور منکرین خدا کی تایید نہیں تردید کررہا ہے ۔ کائنات عدم سے وجود میں آئی نہیں، لائی گئی ہے اس کے پیچھے اللہ کی قدرت کا دخل ہے ،جس نے تخلیق کے ارادے سے اپنے” کن“ کے ذریعےاس کووجود بخشا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

مسلمہ اصول ہے کہ ہر حرکت کے پیچھےاس کا کوئی محرک (حرکت پیدا کرنے والا)ہوتا ہے جواس کونظم و ترتیب  کے ساتھ حرکت دیتا ہے اوراس کو آگے بڑھاتا ہےاوراگر اس کےساتھ کوئی محرک نہ ہو تو حرکت اورعمل نامکمل ،بے ترتیب رہ جاتا ہے؛تو انسان جب اس عالم کو دیکھتا ہے تو اس میں ایک غیر معمولی نظم اور اصول نظرآتا ہےجو دلالت کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہےجو اپنےعلم سےاس میں کام کررہا ہے؛لہذا ہم یہ ماننے پرمجبور ہیں کہ کائنات کی تخلیق کے وقت اتناعظیم دھماکہ اور اس کے بعد پےدرپے تبدیلیاں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں ،یا یہ سب بغیرکسی خالق کے خودوجود میں نہیں آسکتا، جیسا کہ منکرین خداکا گمان ہے ،بلکہ ان سب کے پیچھے ایک ذات عالی ہے جو عظیم طاقت اور قدرت کا مالک ہے،جس نےاس جہاں کو بنایا اور منظم طریقے سے اس کو چلارہا ہے۔

لقوله تعالی:

 {أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ } [الأنبياء : 30]

ترجمہ:کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ زمین اور آسمان پہلے بند تھے اور ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت) سے کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے۔

رتق اور فتق کے معنی میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں ہم یہاں دو قول نقل کرتے ہیں۔

(1)         تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر – (18 / 431)

 عن ابن عباس، قوله (أو لم ير الذين كفروا أن السماوات والأرض كانتا رتقا ففتقناهما) … الآية، يقول: كانتا ملتصقتين، فرفع السماء ووضع الأرض.

اس تفسیر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان آپس میں ملےہوئے تھےاللہ نے ان کو وجود بخشا۔

(2)  رتق اور فتق ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔رتق کے معنی دو چیزوں کا آپس میں مل کر جڑجانا ،فتق کے معنی ان جڑی ہوئی چیزوں کاالگ الگ جدا کرنا ہے۔(تفسیر تیسیر القرآن) یعنی زمین وآسمان ابتداء میں سب ملے ہوئے تھے پھر اللہ نے ان دونوں کو کھول کر جدا کردیا ،جیسا کہ سائنس کا کہنا ہےکہ ابتدا میں دنیا ایک مادے میں مرتکز تھی جو دھماکے کے بعد پھیل گئی۔

بگ بینگ نظریے اور آیت مذکورہ میں مطابقت واضح ہے کہ دنیا ازل میں عدم تھی پھر اس کو وجود میں لایا گیا اور وجود میں لانے والی ذات اللہ سبحانہ و تعالی کی ہے ۔

عن ابن عباس قال: يطوی الله السموات السبع بما فيها من الخليقة والارضين السبع بما فيها من الخليقة يطوی ذلک کله بيمينه يکون ذلک کله فی يده بمنزلةخردلة۔(اخرجه ابن ابی حاتم)۔

فقط والله المؤفق

دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں