نظریہ پاکستان

جامعۃ الرشید سالانہ فضلاء تقریب کے ملفوظات‎

موضوع :  نظریہ پاکستان

حضرت مفتی محمد صاحب

  • برصغیر میں اسلام ،مسلمانوں اور دینی اقدار کے تحفظ کے کئی ادوار آئے :

مجددالف ثانی کی کاوشیں،شاہ ولی اللہ کی جدوجہد،سیداحمدشہید کی تحریک مجاہدین،حاجی امداداللہ مہاجرمکی کی امارت میں  1857 کی جنگ آزادی،دارالعلوم دیوبند،شیخ الہندرحمہ اللہ اور ان کی تحریک ریشمی رومال۔

  • جہاں ایک طرف علامہ اقبال  نے  نظریہ پاکستان پیش کیا تھا ،وہاں  حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بھی پاکستان کا نظریہ پیش کردیا تھا، گو کہ اسے تحریکی صورت علامہ اقبال نے دی۔
  • نظریہ پاکستان کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قومیں ہیں۔ان کی اقدار جداگانہ ہیں۔ان کے نظریات ، رسوم وروایات اور طور طریقے جداگانہ ہیں ،اس لیے قدرتی بات ہے کہ نظریات کے اس وسیع اختلاف کے ساتھ یہ دونوں قومیں ایک جگہ نہیں رہ سکتیں۔دونوں  کے ملک  الگ الگ ہی ہونے چاہییں۔ہندوؤں کا ملک ہندومت کے نظریے پر ہو اور مسلمانوں کا ملک اسلام کی بنیاد پر ہو۔
  • قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم نے سینکڑوں بار کہا کہ قرآن اور اسلام کے نام پر یہ ملک بنایاجارہا ہے۔پاکستان بننے کے بعد بھی  قائد اعظم نے بیسیوں بار  پاکستان  کا نظریہ ،اسلام اور قرآن قرار دیا۔
  • کچھ عرصے سے سیکولر طاقتیں یہ راگ الاپ رہی ہیں کہ قائد اعظم   کامقصد سیکولراسٹیٹ قائم کرنا تھا۔یہ طاقتیں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعدسے ہی پاکستان میں متحرک ہوگئی تھیں۔ان کے عزائم کو خاک میں ملانا ہماری ذمہ داری ہے۔
  • پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے علما نے پہلے دن سے کوششیں کی ہیں۔قراردادمقاصد علما نے تیار کی اور آئین کے 22 نکات بھی علما نے تیار کیے۔قرارداد مقاصد الگ چیز ہے اور 22 نکات الگ چیز۔ قرارداد مقصد میں بھی ہمارے اکابر شامل تھے، بالخصوص مولانا شبیر احمد عثمانی کاکردار بہت نمایاں تھا، یہ آئین کے لیے اصل الاصول کی حیثیت رکھتی ہےاور اب آئین کا دیباچہ اور ناقابل تنسیخ حصہ ہے،جبکہ 22 نکات جو 31 علما نے مرتب کیے تھے، وہ اس کے بعد ہوئے تھےاور ان میں قانون سازی کے اصول بیان کیے گئے تھے۔اس میں کہاگیا کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کو حاصل ہے۔کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ قراردادمقاصدکے مسودے میں تحریف کی کوشش کی گئی اورترمیم اورتحریف شدہ  قانون پاس کرانے کی کوشش کی گئی،  جس کے بعد علما نے نئے سرے سے کوششیں کیں۔مسودے کی اصل کاپیاں راتوں رات چھپوادیں،جس سے عوام کو معلوم ہوگیا کہ اصل مسودہ یہ ہے اور بالآخر اسے تحریف سے بچالیا گیا۔اسکندر مرزا نے اصل مسودہ منظور کیا۔اسلامی جمہوریہ  کا اضافہ ہمارے اکابر نے آئین میں کیا تھا۔ ایوب خان نے اسلامی کا لفظ ہٹادیا،علما نے پھر سے کوششیں کیں اور 1973 میں  آئین کے طور قراردادمقاصد پاس ہوا اور آج تک یہ ہمارے آئین کا حصہ ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اتنا جامع اور مکمل اسلامی آئین ہے۔   
  • کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اجتہادکا حق پارلیمنٹ کو دیا ہے۔اس کی وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں۔اقبال  کے اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال نے قرآن کو آئین قرار دیااور ساتھ میں  دین کی نئی تطبیقات  پر زور دیا۔یہ بھی فرمایا کہ اجتہاد کے اصول وہی ہیں  جو فقہا کے ہیں،ساتھ میں یہ بھی تجویزدی ہے کہ اجتہاد کا اختیارادارے کو دیاجائےاور کہا کہ وہ پارلیمنٹ بھی ہوسکتا ہے۔ساتھ میں وضاحت کی کہ   اس ادارے میں ہرمکتب فکر کے علما کو نمائندگی دی جائے،کیونکہ ہرمکتب فکر میں صحیح الفکر علما موجود ہوتے ہیں،ان کو ملاکر اجتہاد کا بورڈ بنایا جائے اور علما کی منظوری کے بغیرکوئی قانون پاس نہیں ہونا چاہیے،یہ تھا  ان کا نظریہ۔ جاہل ارکان پارلیمنٹ کو انہوں نے اختیارات  دینے کی بات نہیں کی۔
  • اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان کی حفاظت کریں۔پاکستان کی قدر کریں۔ان سقیم الفکر لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئیں جو اس آئین کو کفر کہتے ہیں  اورقائد اعظم کو منافق کہتے ہیں اور پاکستان کے خلاف  باتیں کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں