اولاد کی دینی تربیت کی اہمیت اور  طریقہ کار

جمع وترتیب:محمد حارث محمود

استاد ورفیق دار الافتاء:جامعۃ السعید نزد نرسری کراچی

“دینی تربیت کی اہمیت”

“درس نمبر ایک”

قرآن کریم کی بے شمار آیات  اور سی بہت احادیث  نبویہ  میں انسان کی اس بات پر ذہن سازی کی گئی ہے کہ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی درحقیقت ہمیشہ کی ابدی آخرت کی زندگی کی تیاری کے لیے ہے،اس  لیے یہ بات  ضروری ہے کہ بچپن ہی سے بچہ کی ایسی دینی تربیت کی جائے کہ بالغ ہونے کے بعد جب وہ  پورے دین پر چلنے  کا وہ پابند ہو تو بچپن کی دینی تربیت   کی بنا پر اسے دین پر چلنا آسان ہوجائے،اور دوسری  طرف  اپنی ذات کے علاوہ  والدین ،بھائی بہن اور دیگر رشتہ داوروں اور عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ  شخص باعث راحت بنے ۔

افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین  بذات خود  بچہ کو دینی آداب  سکھانااپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے ،بلکہ   چھوٹی عمر میں تو اس کا  خیال ہی نہیں رہتا والدین کو کہ بچے کو  کیا سکھانا ہے،کن چیزوں سے اس کو دور  رکھنا ہے،اور جب  بچہ کچھ بڑا ہوجاتا ہے توبعض اسکول ،ٹیوشن اور بعض مدرسہ میں بھیج کر  یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم وتربیت اب انہی اداروں کاکام اور ان کی ذمہ داری ہے ،ہماری ذمہ بس ان کو وقت پر بھیجنا ،ان کے اخراجات اٹھانا ہے،حالانکہ قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش سے  ہی دینی تربیت کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔

قرآن کریم اور احادیث  نبویہ  کی روشنی کیں  کچھ باتیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے جس سے اولاد کی  دینی تربیت  کی اہمیت واضح ہو:

1۔اولاد كی دینی تربیت نجات کے لیے  ضروری ہے:

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور  اپنے گھر والوں  کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن  انسان اور پتھر ہوں گے”(سورۃ التحریم :آیت نمبر 6)

مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہے کہ  انسان کی نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ  اپنے آپ کو  نیک اعمال میں لگائے  اور آگ سے  بچے اور یہ سمجھے کہ بس  مجھ سے  یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ  گھر والے کیا کرتے رہے ،بلکہ  جس طرح اپنی ذات کو آگ سے بچانا ضروری ہے اسی طرح  گھر والوں  کو اپنے بچوں کو آگ سے بچانے  ضروری ہے،   ، اور یہ اچھی تربیت کے بغیر ممکن نہیں ۔

اس آیت کریمہ میں جو یہ کہا  جا رہا ہے کہ    اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ،یہ اس طرح کہا جا رہا ہے کہ جیسے آگ سامنے ہے حالانکہ ہمارے سامنے تو کوئی آگ نہیں بھڑک رہی،بات دراصل یہ ہے کہ یہ جتنے گناہ ہوتے نظر آرہے ہیں یہ سب حقیقت میں آگ ہیں ۔

بعض لوگوں کو آج   دیکھا جاتا ہے کہ خود تو ماشاء اللہ بڑا  دین پر چلنے کا اہتمام ہے لیکن اولاد اور دیگر گھروالوں کی فکر ہی نہیں،تو یاد رکھے  جس طرح اپنی ذات کو پورے دین پر چلانا انسان کے فرائض میں داخل ہے اسی طرح  اولاد اور دیگر گھر والوں   کے لیے بھی اس  بات کی پوری کوشش کرنا کہ وہ بھی  پورے دین پر چلنے والے ہوجائیں  ضرروی ہے، قیامت کے دن انسان سے جس طرح اپنی  ذات کے بارے میں سوال ہوگا اسی طرح  اپنے ما تحتوں کے بارے میں بھی اس سے سوال ہوگا کہ  تم نے ان کو کتنا دین پر لانے کی کوشش کی ،مر دسے اس کی بیوی اور بچوں کے بارے میں یہ سوال ہوگا،اسی طرح استاد سے شاگردوں کے بارے میں ، ادارے کے مالک سے اس کے ما تحت مزدوروں کے  بارے میں  کہ ان کو دین پر لانے کی کیا کوشش کی تھی ؟

اولاد کا معاملہ دیگر رشتہ داروں کی طرح نہیں:

صرف اولاد کو ایک دو بار کہنا یہ کافی نہیں ، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بھائی ہم تو اپنی اولاد کو کہتے ہیں مگر وہ  نماز نہیں پڑھتی فلاں کام نہیں کرتی ،اس آیت میں   یہ سمجھا یا گیا ہے کہ  اپنی اولاد کو آگ سے بچاؤ،اب یہ تصور کرو کہ اولاد دین پر نہیں چل رہی تو سمجھ لو کہ آگ میں جا رہی ہے ،اگر کسی شخص کا  بیٹا آگ میں  جانے  کے قریب ہو تو صرف کیا یہ کہنا کافی ہوگا کہ آگ میں نہ جاؤ یا آگے بڑھ کر  اس کو بچانے کی کوشش کرو گے؟اس لیے  صرف ایک دو بار کہنا کافی نہیں بلکہ اولاد  کی دینی تربیت  کی اتنی فکر کرنا ضروری ہے جتنی  خود اپنی ذات کی اصلاح   کی فکر ضرروی ہے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ  بیوی بچوں  کی اصلاح کے لیے ضرورت کے وقت ان پر سختی کرنا،اولاد کو مناسب    مار پیٹ کرنا بھی جائز ہے،جبکہ بھائی بہنوں ،دیگر رشتہ داروں اور عام مسلمانوں کو نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنا کافی ہے  لیکن اولاد کے لیے صرف یہ کافی نہیں۔

2۔اہل وعیال کو نیک اعمال کا حکم انبیاء علیہم السلام کو بھی دیا گیا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ:آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کی پابندی کریں(طہ:133)،اسی طرح قرآن کریم میں انبیاء  علیہم السلام  کا اپنی اولاد کو نصیحت کرنے کا ذکر ہے:

حضرت اسماعیل علیہ السلام  اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے(سورہ مریم :25)

سورہ بقرہ میں  ذکر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی جب وفات ہونے لگی تو اپنے بیٹوں کو جمع کیا  اور فرمایا کہ بتاؤ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟(بقرۃ:98) یہ نہیں  فرمایا کہ تم کہاں سے کماؤں گے ،یہ فکر پیدا کرنے کی ضرروت ہے  صرف کہنا کافی نہیں۔

3۔۔۔اولاد کی دینی تربیت اصلاح معاشرہ کا ذریعہ ہے:

آج کل ہر آدمی  معاشرے میں پھیلے ہوئے جرائم  کو بخوبی جانتا ہے،جن میں    بددیانتی،جھوٹ ،غیبت  ،مخلوق خدا سے ہمدردی نہ کرنا،مال کمانے کی دوڑ چاہے اس کے لیے کسی کا مال ناحق  لوٹا جائے یا  کسی کی آبر و ریزی کرنا پڑے اور اس  جیسے   نہ جانے کتنے جرائم کا ہمارا معاشرہ شکار ہے،لیکن اگر  اس کے اسباب پر نظر کی جائے تو ان جرائم کا ایک بڑا سبب اولاد کی دینی تربیت کا  فقدان ہے؛کیونکہ ظاہر ہے معاشرہ نام ہے افراد کا،اور یہ افراد جو آج  ان سی بھی عہدے پر بیٹھ ان جرائم میں ملوث ہیں  کل کو یہ   کسی  نہ کسی کے چاہے ماتحت تھے،اور کہیں نہ کہیں ان کے صحیح تربیت کا نہ ہونا  معاشرے کے بگاڑ کا سبب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں