اولاد کی دینی تربیت کی اہمیت

“درس نمبردو”

4۔اولاد کا نیک ہونا صدقہ جاریہ ہے:

جس طرح اولاد کی تربیت میں کوتا ہی کرنا انسان کی آخرت میں پکڑ کا سبب ہے ،اسی طرح اگر اولاد کی اچھی تربیت کی ،اس کو نیک بنایا  تو یہ  مرنے کے بعد انسان کے لیے صدقہ جاریہ  ہے،حدیث شریف میں ہے:جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا ثواب ختم ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ،دوسرے وہ علم جس سے  لوگوں کو نفع پہنچتا رہے،تیسرا نیک اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرتی رہے۔

اولاد کو نیک بنانا دو حقیقت اپنے اعمال  میں  نیکیوں کا اضافہ کرنا ہے،مرنے کے بعد  انسان  عمل نہیں کر سکتا  لیکن  اولاد کو نیک بنا کر چلے جاؤ،اب وہ جو بھی نیک کام کرے گا،والدین کو بھی اس کا اجر ملے گا،اس کی اہمیت قبر میں معلوم ہوگی جب  اس کے عذاب سے بچاؤ کے لیے اچھے اعمال کی ضرروت ہوگی ،اس کی حقیقت قیامت میں معلوم ہوگی جب  ایک ایک نیکی کے لیے  لوگ ترس رہے ہوں گے،تو جب پتا چلے گا کہ جو لوگ  اولاد کو نیک بنا کر چلے گئے  وہ جب روز قیامت اپنا اجرو ثواب دیکھں گے تب انہیں معلوم ہوگا کہ انھوں  نے    خوب  نفع کا سودا کیا تھا۔

5۔اولاد کی تربیت کی ذمہ داری  پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہے:

اولاد کی دینی تربیت  کتنی اہم ہے اس کا اندازہ اس   سے بھی  لگایا جا سکتا ہے کہ پچہ جیسے ہی پیدا ہو تا ہے  والدین پر بچہ کی دین تربیت کی ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے ، سب سے پہلی بات سب سے پہلے بچہ کے کانوں میں  اذان واقامت کہنے کا حکم دیا ،ا سکے بعد  تحنیک کا عمل،ختنہ کروانا،نام رکھنا،خوشحالی ہو تو عقیقہ رکھنا  وغیرہ۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں  بچے کی دینی تربیت کی یہ ذمہ داری  والدین پر عائد ہوجاتی ہے حالانکہ    اصل معاملہ تو انسان کا بالغ ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے، بات یہ ہے کہ بچپن  میں اچھی تربیت  پوری زندگی  پر اثر انداز ہوتی ہے،یہ بات بھی آپ جانتے ہوں گے کہ بچپن میں جس چیز کی عادت ڈال  لی جائے وہ عادت زندگی بھر رہتی ہے ،جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ”بچپن کی عادت پچپن تک رہتی ہے”وجہ اس کی یہ ہے کہ بچہ کا  دل ودماغ  چھوٹی عمر میں   ہر قسم کے گناہ   کے گندگی سے پاک ہوتا ہے ؛کیونکہ بالغ ہونے سے پہلے تک گناہ اگر ہوبھی جائے تو شرعاً وہ معاف ہیں ، اسی وجہ سے چھوٹی عمر میں قرآن کریم حفظ کروایا جاتا ہے،اس لیے جو بات بھی  بچہ اس عمر میں بچے کو سکھائی جائے گی اس کا دل ودماغ فوراً اس کا قبول کرکے عمل کرنا شروع کردے گا، اور   اگر اچھی تربیت کی ہوگی بچہ کی تو وہ باتیں جو بچپن میں سکھائی گئی ہوں گی وہ  ساری عمر یاد رہیں گیں اور عمل کرنے پر اس شخص کو ابھارے گیں اور بری  باتیں سیکھنے کا اثر اس کے برخلاف ہوگا۔

2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی  عطیہ اور تحفہ حسن سیرت  سے بہتر نہیں دیا”یعنی باپ کی طرف سے سب سے  بہترین اور عمدہ تحفہ اپنی اولاد کے لیے یہی ہے   کہ وہ ان  کی ایسی تربیت کرے کہ جس سے ان کے اخلاق اور رہن سہن   شریعت کے مطابق ہو۔

6۔اولاد کی دینی تربیت کرنا آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے:

اولاد کی دینی تربیت کا فائد ہ دینا سے جانے کے بعد قبر میں اور آخرت میں  تو ہے  ہی دنیا میں بھی ہے ،نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے،قرآن کریم میں   اللہ نے اپنے بندوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ یہ دعا کرتے ہیں ” :یا اللہ! ہماری بیویوں اور اولادوں کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا(الفرقان:29)

نیک اولاد بڑھاپے میں  والدین کا سہارا ہوتی ہے ،ان کا خیال رکھتی ہے،ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث ثواب   اور  آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے،اور  اپنے دوسرے کاموں پر   والدین کی خدمت کو   ترجیح دیتی ہے۔

7۔اولاد کی دینی تربیت میں کوتاہی  دنیا میں  بھی  پریشانیوں  کا باعث ہے:

آج ہر گھر کا تقریباً یہ مسئلہ ہے کہ والدین کہتے ہیں کہ اولاد ہماری  بات نہیں مانتی ،بدتمیزی کرتی ہے ،لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جو دینی تربیت کا حق اللہ تعالی نے  ہماری ذمہ کیا تھا اس کو کتنا نبھایا  ہم نے؟ ہم اولاد کی  دنیا بنانے کے لیے اس کو دین نہیں سکھاتے تاکہ یہ بڑے ہوکر اچھا کمائے اچھا  کھائیں ،یاد رکھیں کہ  اللہ تعالی کی ایک سنت ہے  جو حدیث  شریف میں   بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی مخلوق کو کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو  ناراض کرے تو اللہ تعالی اسی مخلوق کو  اس پر مسلط فرمادیتے ہیں ،آج ہم  بچوں کو راضی کرنے کی خاطر یہ سوچتے ہیں  کہ ان کا  مستقبل اچھا ہوجائے،ان کی آمدنی اچھی ہوجائے،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس اولاد کو راضی کرنے کے لیے سب کچھ کیا تھا وہی اولاد والدین پر مسلط ہوجاتی ہے؛کیونکہ والدین کی اہمیت ،ان کی خدمت پر اجرو ثواب یہ سب دینی تعلیم وتربیت سے بچوں کو معلوم  ہوتا ہے ،جبکہ ہم    بے دینی کے  ماحول  میں  آزاد چھوڑدیا جہاں والدین کی عظمت ان کی خدمت کا کوئی تصور نہیں،پھر وہ   آگ چل کر جب اپنی نفسانی خواہش کے مطابق  فیصلے کرتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے ،یہاں تک واقعات  سامنے آتے ہیں کہ والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں  تو اولاد  ان کو گھر میں رکھنے کے لائق نہیں سمجھتی  ان کو نرسنگ  ہوم میں  بھیج دیتے ہیں ،وہاں  پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں کہ والدین کس حال میں  ہے۔

اسکول وکالج میں بھیجنا اور عصر ی تعلیم   دینا  منع نہیں  لیکن    ایسے ادارہ  کا انتخاب کیا جائے جہاں کا ماحول  بے دین قسم کا نہ ہو،اور ساتھ ساتھ اولاد  کو آزاد نہ چھوڑا جائے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے حالات کا جائز ہ لیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں