ہمارا مقصد تخلیق کیا ہے؟

تخلیق کائنات کا راز:

ارشاد خداوندی ہے:

*۔۔۔ ’’وہ ہی ہے جس نے تمہاری بقا اور تمہارے فائدے کے لیے زمین میں ہر طرح کی چیزیں تخلیق فرمائیں۔‘‘ (البقرۃ : ۲۹)
*۔۔۔’’وہ ہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے فائدے کے لیے پانی اتارا جو تمہارے پینے کے قابل ہے اور اسی سے نباتات اگتے ہیں اور اسی میں تمہارے جانور چرتے ہیں۔ تمہارے ہی لیے وہ اس سے مختلف قسم کے کھیت، زیتون، انگور اور ہر قسم کے میوے اگاتا ہے۔۔۔ اور اسی نے دن، رات، سورج اور چاند ان سب کو تمہارے تابع کردیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم سے تمہارے کام میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ اور اسی نے زمین میں رنگ برنگ ہر قسم کی مخلوقات تمہارے فائدے کے لیے پھیلا دی ہیں ۔۔۔ اور وہ ہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے کام لگا دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تروتازہ گوشت کھاؤ اور قیمتی زیورات اس سے نکال کر پہن سکو! اور تو دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح ایک کشتی سمندر کی موجوں کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم خدا کے فضل سے روزی حاصل کرسکو اور اس کے شکر گزار بندے بنو! اور اسی نے زمین پر پہاڑ رکھ دیے تاکہ اپنی حرکت (زلزلوں) سے زمین تمہیں لے کر بیٹھ نہ جائے! اور تمہارے ہی فائدے کے لیے اس نے نہریں اور راستے بنائے تاکہ ایک ملک سے دوسرے ملک جاسکو!‘‘ (النحل: ۱۰-۱۵)
*۔۔۔’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اﷲJ نے آسمان و زمین کی تمام مخلوقات کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور تم پر اپنی مادی اور روحانی ہر قسم کی نعمتوں کو نچھاور کردیا ہے۔‘‘ (لقمان: ۲۰)
ان فرامین مبارکہ کو بار بار غور سے پڑھیے! اﷲ جل شانہ نے ان آیات میں تخلیق کائنات کے راز سے پردہ اٹھایا ہے۔
اﷲ J نے مختلف پیرایوں میں انسان کو یہ باور کرایا کہ کائنات کی یہ تمام تر تخلیقات انسان کے فائدے کے لیے ہیں۔ قدرت کی یہ تمام رنگینیاں انسان کے تابع ہیں۔ اور جہانِ آب و گِل کی یہ ساری وسعتیں انسان کی خدمت اور بقاء کے لیے مامور ہیں۔
انسان اﷲ Jکی مخلوقات میں غور و فکر کرے تو باآسانی وہ یہ گتھی سلجھا سکتاہے کہ یہ سب چیزیں انسان کی خدمت میں کیسے جُتی ہوئی ہیں؟ دن رات کی تبدیلی سے فائدے کون حاصل کرتا ہے ؟چاند، سورج اور ستاروں کی روشنیاں انسانوں اور انسانی غذاؤں کے لیے کس قدر افادیت کی حامل ہیں؟ تند و تیز موجوں اور طاقتور سمندری لہروں کے سامنے بحری جہازوں اور کشتیوں کا یوں آسانی سے گزر جانا، سمندری ریلوں کا زمینی آبادیوں پر حملہ آور نہ ہونا ، اربوں کھربوں ستاروں اور سیاروں کا یہ ڈسپلن کہ اپنے مقررہ مدار اور باؤنڈری سے سرمو انحراف نہیں۔ یہ حقائق کھلی نشانیاں ہیں کہ رب ذوالجلال نے وقت مقررہ تک انہیں اپنی بہترین مخلوق (انسان) کے فائدے اور خدمت کے کام میں لگا دیا ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فضیلت صرف انسان کے لیے ہی کیوں؟کائنات کی ہزاروں مخلوقات میں سے انسان میں وہ کیا خاص بات ہے جس کی وجہ سے اس قدر عزت و تکریم کے لیے اس کا چناؤکیا گیا؟
جواب اس کا یہ ہے کہ کائناتِ ارض میں صرف انسان ہی اﷲ رب العزت کی وہ تخلیق ہے جس کو اس نے علم و ادراک اور عقل و شعور کی صلاحیت بخشی ہے۔ یہ صلاحیت اس نے کسی اور مخلوق کو عنایت نہیں کی۔ کائنات کی دیوہیکل اور عظیم البحثہ مخلوقات اپنی جسامت میں چاہے کتنی ہی بڑی ہوں لیکن وہ عقل و شعور سے عاری اور فہم و ادراک سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ انسان کی اسی اضافی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے رب العزت نے کائنات ارض میں اپنی نیابت و خلافت کا تاج بھی اسی کے سر پر سجایا ہے ۔
دوسرا سوال:
یہاں ایک دوسرا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کائنات کی تمام مخلوقات کا مقصد انسان کی خدمت ہے توخود انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ کیا انسان بغیر کسی مقصد کے تخلیق کیا گیا ہے؟ کیا انسان دنیا میں صرف موج مستی کے لیے بے کار اور معطل پیدا کیا گیا ہے؟ اگر انسان کا مقصد تخلیق صرف دنیا کی چیزوں سے فائدہ حاصل کرنا، کھانا، پینا، سونا اور سیرو تفریح کرنا ہے تو یہ مقصد دنیا میں بسنے والے ہزاروں حیوانات اور چرند پرند حسن و خوبی سے پورا کر رہے تھے۔ ایسے میں انسان کی تخلیق کے کوئی معنیٰ نہیں۔
انسان کا مقصد تخلیق بندگی ہے:
معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق صرف دنیا کی چیزوں سے فائدہ حاصل کرنے، کھانے پینے اور موج مستی کرنے کے لیے نہیں کی گئی۔ اسے عقل و شعور اور علم و ادراک کی امتیازی خوبیاں اس لیے نہیں دی گئیں کہ وہ ان کے بل بوتے پر اپنی زندگی صرف عیش و عشرت اور بہتر سے بہتر سہولتوں کے حصول میں ضائع کردے۔ بلکہ اس کا مقصد تخلیق اپنے خالق و صانع کی بندگی اور اس کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔
*۔۔۔ارشاد خداوندی ہے: ’’اور میں نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے تخلیق نہیں کیا۔‘‘
(ذاریات: آیت نمبر ۵۶)
*۔۔۔’’ اس نے دنیا میں موت و حیات کا سلسلہ اس لیے قائم کیا تاکہ وہ تم انسانوں کو جانچ سکے کہ تم میں سے کون اپنے رب کی بہترین بندگی کرتا ہے۔‘‘ (الملک: آیت۲)
اسی حقیقت کو حضراتِ مشایخ یوں تعبیر کرتے ہیں کہ ’’ اللہ Jنے کائنات کو انسان کے لیے پیدا فرمایا ہے اور انسان کو خود اپنے لیے تخلیق کیا ہے۔‘‘
مثال:
اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے!ایک نیک، عادل اور منصف مزاج بادشاہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ اس کی سلطنت کا دنیا میں نام روشن ہو اور رعایا میں تعلیم کا بول بالا ہو ۔اپنے مشن اور ارادے کی تکمیل کے لیے وہ مملکت کے تمام تر وسائل اس مقصد کے لیے جھونک دیتا ہے۔ ملک بھر میں مدارس، اسکول اور کالجز کا جال بچھا دیا دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی اچھی تعلیم حاصل کرے گا۔ محنت اور لگن سے علوم کی تکمیل کرے گا۔ اس کو مملکت کے فلاں فلاں عہدے اور منصب عطا کیے جائیں گے اور جو ان سے استفادہ نہیں کرے گا اس کو قانون کی فلاں فلاح دفعہ کے تحت سزا دی جائے گی۔ اب اس کے بعد جو کوئی ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے محنت اور ذوق و شوق سے علوم حاصل کرکے بادشاہ کی منشا پوری کرتا ہے، بادشاہ اس کو انعامات اور اعزازات سے نوازتا اور ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتا ہے اور جو کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناخواندہ رہتا ہے اسے کال کوٹھری میں قید کردیتا ہے۔
اسی طرح اﷲ رب العزت نے کائنات کے یہ تمام تر وسائل انسانوں کے لیے تخلیق کیے ہیں اور انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے کائنات میں اس کی مرضی و منشاء کے مطابق اس کی ’’بندگی‘‘ اور ’’غلامی‘‘ کرے ۔
بندگی کا صحیح مفہوم:
عموماً ’’عبادت‘‘ کا مطلب لوگ ’’پرستش، پوجا اور چند خاص آداب بجا لانا‘‘ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عبادت کا ادھورا مفہوم ہے۔ عبادت کا کامل اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے سن بلوغت سے لے کر موت تک کے تمام ادوار میں ، زندگی کے تمام شعبوں میں ایک خدا کی ذات کی بندگی اور غلامی قبول کرلے۔ پوجا اور پرستش اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ رہن سہن اور رسوم و روایات اس کی منشاء کے خلاف نہ ہوں۔ سیاست اور نظام حکومت اس کے نازل کردہ آئین و قانون سے منحرف نہ ہوں۔ قضاء اور عدالت کے شعبے اس کی طرف سے طے کردہ قانون کے مطابق ہو۔ کاروبار، تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت یہ سب اسی کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہوں۔ یہ ہے انسان کا مقصد تخلیق ۔
مقام فکر!
اس موقع پر کچھ دیر ٹھہر کر غور کیجیے کہ آج انسان کا عمل اس کے مقصد تخلیق سے میل کھاتا(match) ہے یا نہیں؟ انسان اپنے خالق اور پاک عظیم پروردگار کی منشاء کے مطابق اپنا مقصد حیات تشکیل دے رہا ہے یا اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے سسٹم کا غلام ہے؟ اگر وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے خودساختہ آئین و روایات کا پابند ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کرکے زمانۂ جاہلیت کی اس اندھیر نگری میں جاداخل ہوا جہاں انسان انسان ہی کی غلامی کرتا تھا۔ ایسے میں انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ بلکہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ٹھہرتا ہے کہ جانوروں میں تو عقل نہیں اور انسان کو اس کے خالق نے عقل و ادراک کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ قرآن اس کی مثال یوں بیان کرتا ہے:
’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے حقائق دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر خدائی باتوں کو ،قبول کرنے کی نیت سے سنتے نہیں۔ ایسے انسان تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں‘‘۔ (الاعراف: ۱۷۹)

اپنا تبصرہ بھیجیں