پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ نویں قسط

پاک افغان تعلقات۔ دوسرا حصہ

جب بھٹو نے افغانستان میں جہاد منظم کرنا چاہا تو کابل یونیورسٹی کے تین طلباء اور ان کے استاذ کو پاکستان لایا گیا۔ یہ تینوں طالب علم بہت ہی گہرے دوست تھے اور یونیورسٹی میں کمیونزم کے خلاف سب سے زیادہ متحرک بھی۔ ان میں ایک جان محمد دوسرے احمد شاہ مسعود اور تیسرے گلبدین حکمتیار تھے جبکہ استاذ پروفیسر برھان الدین ربانی تھے۔ ان میں استاذ ربانی اور احمد شاہ مسعود تاجک جبکہ باقی دونوں افغان تھے (افغانستان میں پختون کو “افغان” کہتے ہیں) ان تین دوستوں کی پہلی سخت ایکٹوٹی یہ تھی کہ انہوں نے کابل یونیورسٹی کا ڈانسنگ فلور جلا دیا تھا جو لکڑی تھا اور سبب اس کا توہین اسلام کا ایک واقعہ بنا تھا جو کمیونسٹوں کا وطیرہ تھا۔ بھٹو دور میں ابتدائی ٹریننگ 19 لڑکوں کو دی گئی تھی جنہیں یہ تینوں لائے تھے۔ جب جنرل ضیاء آئے اور اس تحریک کو مزید بہتر شکل دی جانے لگی تو انہی دنوں ان تینوں دوستوں میں ایک معمولی سا اختلاف آیا جس میں جان محمد اور احمد شاہ مسعود کی رائے ایک تھی جبکہ حکمت یار کی کچھ اور یہ تینوں پشاور میں تھے اور مسئلہ ابھی طے نہیں ہوا تھا کہ اچانک جان محمد لاپتہ ہوگیا۔ دونوں ہی اسے ڈھونڈنے میں لگ گئے مگر دو روز بعد جان محمد کی لاش ملی۔ احمد شاہ مسعود کا کہنا تھا صبح جس علاقے میں لاش ملی اسی علاقے سے میں نے رات کو حکمتیار کو گزرتے دیکھا تھا۔ حکمتیار کا کہنا تھا کہ میں واقعی اس ایریے میں گیا تھا لیکن جان محمد کی تلاش میں ہی گیا تھا۔ احمد شاہ مسعود نہ مانا اور یہاں سے اس مشہور زمانہ جھگڑے کی بنیاد پڑی جس میں آگے چل کر پورے جہاد کے دوران ان دونوں نے ایک دوسرے پر کئی خونریز حملے کئے۔ جنرل ضیاء نے دونوں کو ساتھ بٹھا کر صلح بھی کرادی لیکن مسعود اس صلح سے بھی آگے چل کر یہ کہہ کر پھر گیا کہ جان محمد کا قتل آئی ایس آئی اور حکمتیار دونوں نے کیا ہے اور پھر مسعود نے پاکستان آنا بھی چھوڑ دیا۔ اس کی تنظیم کا لین دین استاذ ربانی خود پشاور میں بیٹھ کر کرتے تھے۔ آگے چل کر یہ ثابت بھی ہو گیا کہ جان محمد کوخاد نے قتل کیا تھا مگر تب تک مسعود اور حکمتیار ایک دوسرے کا بھاری جانی نقصان کر چکے تھے جس سے دشمنی ناقابل واپسی مقام تک جا چکی تھی۔

اس پورے جہادی سین پر مولوی کہیں نہیں تھے، کابل اور جلال آباد یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء ہی سب کچھ کرتے رہے۔ مولوی سین پر تب نمودار ہوئے جب رشین آرمی افغانستان میں داخل ہوئی اور مولانا مفتی محمود نے جہاد کا فتویٰ جاری کردیا جن کا پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ بیحد احترام تھا۔ اس فتوئے کے نتیجے میں مولانا یونس خالص اور مولانا محمد نبی محمدی کھڑے ہوئے جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فضلاء تھے۔ مولانا یونس خالص ہی اپنے میدانی کمانڈر کے طور پر مولانا جلال الدین حقانی کو لے آئے جو جوان تھے اور حقانیہ کے تازہ فاضل بھی جبکہ محمدی صاحب مولانا ارسلان خان رحمانی کو لے آئےجو ان کے میدانی کمانڈر ہوئے۔ چنانچہ آگے چل کر جب سات جماعتیں بنیں تو ان میں پانچ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والوں کی تھیں جبکہ دو علماء کی تھیں اور علماء کی ان دونوں جماعتوں کا کمال یہ ہے کہ پورے افغان جہاد کے دوران انکی کسی ایک بھی تنظیم سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی جبکہ یونیورسٹی والوں نے تو جہاد کے دوران بھی اور آگے چل کر فتحِ کابل کے بعد بھی وہ فساد مچایا کہ خدا کی پناہ۔ سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد کے ابتدائی دو سالوں میں پاکستان تنہا اس خطرے سے اپنی بساط کے مطابق نمٹتا رہا لیکن جنرل ضیاء کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اتنی بڑی طاقت سے تنہا نمٹناممکن نہیں چنانچہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں مگر وہ ویتنام میں سوویت یونین سے اتنا بڑا زخم کھا کر تازہ تازہ گھر لوٹا تھا جس کی ٹیسیں ابھی بھی اٹھ رہی تھیں جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ویتنام جنگ کے سبب امریکی رائے عامہ فضول جنگوں کے خلاف ہوگئی تھی اور حکومت کو ڈر تھا کہ اگر وہ ایک بار پھر اسقدر جلد بیرون ملک جنگ میں ملوث ہوئی تو رائے عامہ کا پہلے سے بھی شدید رد عمل نہ آجائے چنانچہ امریکہ نے ضیاء الحق کو چند ٹکے پکڑا کر جان چھڑانے کی کوشش کی جسے ضیاء الحق نے “پینٹس” کہہ کر ٹھکرادیا۔ امریکی سیاست لابنگ پر چلتی ہے، اس موقع پر جنرل ضیاء نے کانگریس مین چارلی ولسن کو قابو کرکے اس جنگ میں امریکی شرکت کے فوائد اور شریک نہ ہونے کے نقصانات سمجھائے۔ چنانچہ یہ چارلی ولسن تھے جو امریکی کانگریس کے توسط سے امریکہ کو افغان جہاد میں گھسیٹ لائے یوں سوویت افواج کی افغانستان میں آمد کے دو سال بعد 1981ء میں امریکہ اس جنگ میں اترااور اس کے آتے ہی یورپ بھی آگیا جس سے افغان جہاد نے زور پکڑتے پکڑتے بالآخر رشیا کو افغانستان سے انخلاء پر مجبور کردیا۔ سوویت یونین کا پورا نظام جبر و استبداد پر کھڑا تھا اور اس کے قبضہ کئے ہوئے ممالک اور غلام بنائے گئے انسانوں میں یہ تصور راسخ تھا کہ سرخ فوج ایک ناقابل تسخیر قوت ہے یہ جہاں بھی جائے وہاں سے واپس نہیں ہوتی لھذا سوویت یونین سے آزادی کا تصور ہی بے معنیٰ ہے لیکن جب یہ ناقابل تسخیر قوت افغانستان میں ملبے کا ڈھیر بن گئی تو نہ صرف سوویت یونین بلکہ مشرقی یورپ میں بھی امید کی لہر دوڑ گئی جس سے اگلے دو برس میں نہ صرف یہ کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا بلکہ مشہور زمانہ برلن وال بھی زمیں بوس ہوگئی اور مشرقی یورپ بھی آزاد ہو گیا۔

سوویت یونین نے انخلاء کے باوجود کابل میں بیٹھی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی اور دلچسپ بات یہ ہوئی امریکہ نے افغان مجاہدین کو چھوڑ کر نجیب اللہ کی مدد شروع کردی کیونکہ امریکہ افغان مجاہدین کی حکومت بنوانے کے لئے جہاد میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا مقصد صرف سوویت یونین کی شکست تھا جو پورا ہو چکا تھا۔ رہ گیا افغان مجاہدین کی حکومت کا قیام تو ظاہر ہے وہ امریکہ کیسے قبول کر سکتا تھا۔ جب بالآخر کابل بھی فتح ہو گیا تو اسے شمال سے احمد شاہ مسعود نے گھیر رکھا تھا اور مشرق سے حکمتیار نے اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔ یوں ان دونوں میں کابل کے صدارتی محل تک پہلے رسائی پانے کا ماحول پوری طرح تیار تھا۔ حملے کی پہل احمد شاہ مسعود نے کی جس پر فورا حکمتیار نے بھی پیش قدمی شروع کردی مگر کھیر کی پلیٹ مسعود کے ہاتھ لگی اور پھر وہ طوفان بدتمیزی اور خونریزی شروع ہوا کہ الامان و الحفیظ۔ اس موقع پر مولاناجلال الدین حقانی جو افغانستان کے سب سے غیر متنازع کمانڈر تھے اور جن کا احترام حکمتیار اور مسعود دونوں ہی کرتے تھے مصالحتی کوششوں کے لئے میدان میں اترے اور مسلسل کابل میں بیٹھ کر ان کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ سامنے تو یہ دونوں ان کی ہر بات مان جاتے لیکن جب وہ واپس خوست آجاتے تو یہ پھر باہم لڑنا شروع کردیتے۔ حقانی صاحب ان دونوں کی مسلسل لڑائیوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ چڑ چڑے ہوگئے جس کا اندازہ مجھے خود ذاتی طور پر اس طرح ہوا کہ 1992ء میں ایک دن میں کسی ضروری کام سے ان سے ملنے کراچی سے خوست پہنچا۔ پتہ چلا کہ اٹھارہ دن سے کابل میں ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ کب آئینگے۔ میں نے وائرلیس پر رابطہ کیا، نارمل انداز میں گفتگو شروع ہوئی لیکن دو تین جملوں کے تبادلے کے بعد ہی انہوں نے مجھے کھری کھری سنادیں کہ یہ معاملہ ابراھیم یا خلیل (حقانی صاحب کے بھائی) کے ساتھ نمٹا لو میرے پاس لمبی باتوں کا وقت ہی نہیں ہے۔ حقانی صاحب ایک نہایت بردبار ،متحمل اور منکسر المزاج انسان ہیں، میں نے اس روز پہلی دفعہ انہیں غصے میں پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے جاتے ہوئے میران شاہ سے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا جس میں یہ گفتگو میں نے ٹیپ کرلی تھی۔ آج بھی جب کبھی ان کی ڈانٹ سننے کو جی کرتا ہے تو سن لیتا ہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں