پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ ساتویں قسط

جنوبی ایشیائی ممالک

ــــــــــــــــــــــــ

جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ ہماری فل ٹائم جبکہ بنگلہ دیش سے پارٹ ٹائم دشمنی چل رہی ہے اور وہ پارٹ ٹائم دشمنی بھی ہماری جانب سے نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں سری لنکا سے مضبوط اور گہری دوستی ہے جبکہ باقی ممالک سےنارمل دوستانہ مراسم ہیں۔ بھارت کا ذکر گزر چکا دیگر ممالک میں بنگلہ دیش اور سری لنکا قابل توجہ ہیں۔

بنگلہ دیش
ـــــــــــــــــ

بنگلہ دیش کو چند سطروں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ملک نے بھارت کی سرپرستی میں ہم سے آزادی حاصل کی ہے اور اس آزادی کی محرک جماعت “عوامی لیگ” تھی جو آج بھی ہمیں نفرت ہی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ حسینہ واجد کا خیال ہے کہ اسکےوالد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل میں بھی ہمارا ہاتھ ہے۔ چنانچہ جب بھی عوامی لیگ برسر اقتدار آتی ہے بنگلہ دیش پاکستان کو کڑوی کسیلی سنانی شروع کردیتا ہے اور دوستی کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہوجاتا ہے۔ پاکستان سے آزادی بنگلہ دیشی عوام کا متفقہ فیصلہ نہ تھا بلکہ اس کی مسلم آبادی کی اکثریت پاکستان ہی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ بنگلہ دیش کے ایسے لوگوں کی ترجمان سیاسی جماعت بیگم خالدہ ضیاء کی “بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی” ہےچنانچہ جب بھی یہ جماعت برسر اقتدار آتی ہے بنگلہ دیش کا دوستانہ جھکاؤ پاکستان کی جانب ہوجاتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی اسی پس منظر میں ہمیشہ بیگم خالدہ ضیاء کے قریب اور حسینہ واجد کی حریف رہی ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش تعلقات کی نوعیت سمجھنے کا یہ آسان پیمانہ ہے کہ بس آپ یہ دیکھا کیجئے کہ ان دونوں میں سے برسر اقتدار کونسی جماعت ہے۔

سری لنکا
ــــــــــ

سری لنکا سے ہمارے سٹریٹیجک نوعیت کے تعلقات کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا۔ بھارت سری لنکا میں 70 کی دہائی کے آخر میں تامل علیحدگی پسند تحریک کی بنیاد ڈال چکا تھا جو 1984ء میں باقاعدہ عسکری شکل اختیار کر گئی۔ بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ اس تنظیم کے ذریعے سری لنکا کو کمزور کرکے وہاں فوج اتاری جائے اور خود کو “مہا بھارت” بنانے کا ایک اہم سنگ میل عبور کیا جائے۔ اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لئے جنرل ضیاء نے سری لنکا کو دفاعی شعبے میں تعاون کی پیش کردی جو اُس پورے عرصے میں فوجی تربیت تک رہا۔ جب تامل تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو پاکستان نے اپنا ایمونیشن بھی سری لنکا کو بیچنا شروع کردیا۔ سری لنکن گورنمنٹ کوبلیک میل کرکے قیام امن کے نام پر بھارت نے 1987ء میں سری لنکا میں اپنی فوج اتاری تو سری لنکا نے پاکستان کی خفیہ مدد سے اسے تگنی کا ناچ نچادیا۔ نہ صرف یہ کہ راجیو گاندھی کو سری لنکن ایوان صدر میں گارڈ آف آنر زکے دوران ایک سری لنکن فوجی نے اپنی رائفل دے ماری جس سے اس کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ ملٹری آپریشن کے دوران بھی بھارت کو ایسی عسکری و سیاسی مار پڑی کہ وہ رسوا ہو کر سری لنکا سے اس حالت میں نکلا کہ علیحدگی پسند تنظیم تامل ٹائیگرز کو بھی اپنا دشمن بنا گیا اور بالآخر تامل ٹائیگرز نے ہی راجیو گاندھی کو قتل بھی کردیایوں سارا کھیل الٹا بھارت کے گلے پڑ گیا۔ نوے کی دہائی میں سری لنکا ایک حد تک تامل ٹائیگرز کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا اور اپنے فساد زدہ شمالی صوبے کے دارالحکومت جافنا کو تامل ٹائیگرز سے چھڑا لیا تھا لیکن 2000ء میں انہوں نے پھر قوت پکڑنی شروع کردی اور جافنا کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ اس موقع پر جنرل مشرف نے فوری طور پر سری لنکا کو بھاری ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی جس سے سری لنکن فوج اس خطرے سے نمٹنے کی پوزیشن میں آتی چلی گئی۔

اس عرصے میں سری لنکا نے پاکستان سے اسلحے کی خریداری تیز کردی 2007ء تک سری لنکا نے پاکستان سے 50 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا ۔ جب تامل ٹائیگرز کو اندازہ ہوا کہ پاکستان ان کی کمر توڑنے کے لئے سری لنکا کی بڑے پیمانے پر مدد کر رہا ہے تو انہوں نے 2006ء میں سری لنکا میں تعینات پاکستانی سفیر بشیر ولی محمد پر خود کش حملہ کردیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن سات افراد مارے گئے، اس حملے کے باوجود پاکستان نے تعاون روکا نہیں بلکہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے 2009ء میں150 ملین ڈالر کا اسلحہ سری لنکا کو فراہم کیا۔ راوی کہتا ہے بلکہ فرماتا ہے کہ 2009ء کی بالکل ابتدا میں بھارت پر اچانک انکشاف ہوا کہ اس بار پاکستان سے صرف اسلحہ سری لنکا نہیں آ یا بلکہ ہوش اڑانے والے بھی آئے ہیں چنانچہ پاکستان اور سری لنکا دونوں کے ہوش اڑانے کا منصوبہ ترتیب دیدیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر قتل کروانے کی کوشش کردی گئی جو اللہ کے فضل و کرم سے ناکام رہی۔ اگر یہ ٹیم یہاں قتل ہوجاتی تو سری لنکن عوام کے دلوں میں پاکستان سے ایسی نفرت بیٹھ جاتی جو شائد کبھی نہ نکلتی۔ سری لنکن گورنمنٹ کو بخوبی اندازہ تھا کہ لاہور میں درحقیقت کیا ہو ا اور کس نے کیا اسی لئےاس نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور جلد بقیہ میچز عرب امارات میں کروا کر بھارت کو انگوٹھا دکھا دیا۔ بالآخر مئی 2009ء میں تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا اور 19 مئی کو بدنام زمانہ دہشت گرد “پربھاکرن” مارا گیا جو تامل ٹائیگرز کا سربراہ تھااورصرف وہی نہیں مارا گیا بلکہ پوری دہشت گرد تنظیم کا جڑ سے صفایا کردیا گیا جس سے یہ تیس سالہ دہشت گردی اپنے انجام کو پہنچی۔فوجی آپریشن کے اختتام پر سری لنکا کے ڈپٹی وزیر خارجہ حسین احمد بھائلہ کا یہ بیان عالمی توجہ حاصل کر گیا۔

“سری لنکا کی حکومت اور اس کے عوام پاکستان کو اپنا وہ حقیقی دوست سمجھتے ہیں جس کی ہمیں جب بھی ضرورت پڑی وہ ہمارے ساتھ کھڑا نظر آیا”

اس بیان کے ذریعے گویا سری لنکن حکومت نے تصدیق کردی کہ تامل ٹائیگرز کے خاتمے کا اصل ہیرو کون ہے۔28 مئی 2009ء کو بھارتی اخبار “دی انڈین ایکسپریس” نے صاف صاف لکھ بھی دیا کہ یہ پاکستان آرمی کا کارنامہ ہے اور تامل ٹائیگرز کے خاتمے میں الخالد ٹینک اور پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا مرکزی کردار ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان کی عسکری درسگاہوں میں سری لنکن آرمی افسران کی شروع ہونے والی تربیت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سری لنکن آرمی کی ہائی کمانڈ میں شائد ہی کوئی افسر ایسا ہو جس نے پاکستان سے عسکری کورس نہ کئے ہوں حتیٰ کہ سری لنکن فوج میں فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچنے والے واحد آرمی چیف Sarath Fonseka بھی پاکستان کے تربیت یافتہ ہیں جو تامل ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے موقع پر فوج کے سربراہ تھے۔ تربیت کا یہ سلسلہ اب آگے بڑھ کر جاسوسی کے شعبے میں بھی شروع ہوگیا ہے اور پاکستان سری لنکا کے لئے ایک تگڑی انٹیلی جنس ایجنسی کھڑی کرنے جا رہا ہے۔ ملٹری ہارڈوئیر کی خریداری الخالد ٹینکوں اور لڑاکا طیارے جے ایف 17 تھنڈر کے سودوں تک جا پہنچی ہے دوسری طرف چین نے بھی سری لنکا سے فوجی تعاون شروع کردیا ہے جس میں سب سے اہم اس ہائی ٹیک نیول بیس کی تعمیر ہے جس نے بھارت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں یوں جنوبی ایشیا میں پاکستان اور چین کو بھارت کے جنوب مشرق میں ایک ایسا قابل اعتماد سٹریٹیجک پارٹنر میسر آگیا ہے جس کی مضبوطی بھارت کو اپنی حد میں رکھنے کے کام آئے گی۔ اس قسط کے اختتام پر میرے لبوں پر ایک بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی ہے جس کا سبب یہ خیال ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کی کوششوں پر چخ چخ کرنے والی موم بتی مافیا پر یہ قسط پڑھ کر کیا گزرے گی ؟ سو تسلی کے یہ دو جملے ہی کہہ سکتا ہوں کہ بھائی لوگ ! اب ٹینشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم افغانستان میں جھانکتے رہ گئے اور دور بہت دور جنوب مشرق میں پاکستان میچ جیت کر فارغ بھی ہو گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں