پے ایڈوٹائز کا  شرعی حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:99

ا لسلام علیکم  ! میں نے یہ ویڈیو بھیج دی ہے  یہ مفتی  عبدالمنان  صاحب  کو دے دیں  تاکہ وہ اسے دیکھ کر میری رہنمائی  فرمائیں کہ میں یہ ملازمت   کرسکتا ہوں  یا نہیں ؟   کیونکہ آج   کل لوگ  پوری دنیا  میں اس  سائٹ  پر کام کررہے ہیں  اور مسلمان ممالک  میں بھی لوگ  ان کےساتھ سرمایہ کاری  کرکے  کام کررہے ہیں اور پیسے کمارہے ہیں  ۔ میرا بھی خوب پیسے  کمانے اور اچھے کاموں  میں خرچ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اس لیے  آپ حضرات سے گزارش ہے کہ  اس ویڈیو کا اچھی  طرح معالعہ  فرمائیں اور میری رہنمائی  فرمائیں کہ میں اس پر کام  کروں اور پیسوں کی سرمایہ کاری  کروں یا نہیں ؟

والسلام 

علی اشعر

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 الجواب حامداومصلیاً

 سوال کے ساتھ ارسال کردہ ویڈیو  (My Advertising Pays: MAPS ) کا جائزہ   لیاگیا ۔ا س کا حاصل یہ ہے کہ اس کاروبار  میں کسی قسم  کی حقیقی  خرید وفروخت  نہیں کرنی پڑتی  ، بلکہ اس میں  شامل  ہونے   کے لیے کوئی شخص تقریباً پچاس ڈالر    کے عوض  ایک کریڈٹ  پیک  “ Credit Pack”حاصل کرتا ہے  جس کے نتیجے میں  اسے ساڑھے  پانچ سو کلک کا حق حاصل ہوتاہے  جسے وہ ساٹھ  سے نوے  دنوں کے دوران استعمال  کرسکتاہے ۔ یہمدت گزرنے کے بعد  اس کا مذکورہ  حق ختم ہوجائے گا ا ور اسے کلک  کے ذریعہ  پیسے بنانے کا اختیار  نہیں ہوگا، خواہ  اس نے اس وقت  تک اپنی ساڑھے  پانچ سو  کلک مکمل نہ کی ہوں۔ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے  وہ روزانہ  دس کی تعداد  تکا شتہارات  پر کلک  کرسکتا ہے  جس سے وہ روزانہ ایک ڈالر کا مستحق بن جائے گا ۔ا سی طرح  اس شخص   کو ساٹھ سےنوے  دن کے دورانیہ میں اپنی کلک  کی تعداد  مکمل  کرنے کی صورت  میں ساٹھ  ڈالر  حاصل ہوجائیں گے ۔

اور ایک وقت  میں ایک سے زائد  پیک  بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ  تعداد  بارہ سو  ہے، جن  میں ہر ایک  پیک  کے ذریعہ  روزانہ کا ایک  ڈالر   کمایا جاسکتا ہے ، اور کمائی جانے والی  رقم  جب پچاس ڈالر   ہوجائے تو ا س سے  مزید ایک  پیک  حاصل کیاجاسکتا ہے یہاں  تک  کہ ان کی مجموعی تعداد  بارہ سو تک پہنچ جائے  ۔

 نیز اس کاروبار  میں اپنے علاوہ دوسرے  لوگوں کو  بھی شریک  کروایا جاسکتا ہے  ،ا یسے لوگوں  کو ا س ویڈیومیں  “Referrals “ کانام  دیاگیا ہے۔  اور جتنے لوگوں  کو بھی  آپ اس کاروبار  میں  شریک  کریں گے  ان کی لگائی ہوئی مجموعی  رقم کا دس فیصد  کمیشن  شریک کروانے  والے کو  بھی ملے گا ۔

 یہاں یہ بات مح،ل نظر ہے کہ کیا اشتہارات   پر کلک کرنا ایسی  منفعت  مقصود وہ ہے  جو بذات خود  عقد اجارہ کا محل بن سکے  ؟ لیکن  اگر بالفرض   اسے منفعت  مقصودہ تسلیم کرکے  عقد اجارہ  کا محل قرار دیاجائے گا تو مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں اس کاروبار کی فقہی  تکییف  یہ ہوگی  کہ مذکورہ   کمپنی کلک  کرنے کےعمل  کی اجرت  ادا کرتی ہے ، اور ہر پیک  کے عوض  اس عمل کی تعداد   ( یعنی روزانی دس کلک  اور مجموعی  طور پر ساڑھے  پانچ سو کلک )  اور اس کا وقت (  یعنی اس عمل کا ساٹھ نوے  دن کے دورانیہ  میں ہونا ) فریقین  کے درمیان  طے شدہ ہوتا ہے  ، لہذا  مذکورہ کاروبار میں کلک کرنے والے  کی حیثیت  ” اجیر ” اور مذکورہ   کمپنی  کی حیثیت   ” مستاجر ”   کی ہوگی  ،

اور فریقین  کے  درمیان ہونے والا  معاملہ فقہی  لحاظ سے ” عقد اجارہ  ” ہوگا جس میں عمل اور وقت  دونوں کو معقود علیہ  قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس معاملہ میں ” اجیر ”  بننے کے لیے یہ ضروری  ہے کہ شریک ہونے والا شخص  تقریبا ً پچاس ڈالرز کی ادائیگی   کرکے ایک کریڈٹ   پیک   ( جس کے نتیجے میں کلک کرنے کا حق ملتا ہے) حاصل کرے  ۔ا س کے علاوہ  دوسرے  لوگوں  کو شریک کروانے  پر ان کی لگائی ہوئی مجموعی  رقم کا دس فیصد  کمیشن کے طور  ملتا ہے  ۔ جس کی حیثیت  ” اجرہ الدلال” کی ہوگی ۔

ا س فقہی  تکییف  کے مطابق  مذکورہ  کاروبار کا شرعی حکم یہ ہے کہ ا س میں شریک  ہونا ، یا کسی اور  شریک کروانا  شرعاً جائز  نہیں ہے کیونکہ ا س میں مندرجہ  ذیل شرعی  مفاسد اور خرابیاں  پائی جاتی ہیں:

 ( الف)  اس کاروبار   کا آغاز  کرنے کے لیے  تقریبا ً  پچاس ڈالر   کے عوض  جو کریڈٹ   پیک حاصل کیاجاتاہے ، وہ  رشوت  ہونے کی وجہ سے  شرعا ناجائز  اور  حرام ہے۔ا س کی مثال  اسی طرح  ہے جیسے  کوئی شخص ملازمت  پر تقرری  کے لیے ایک لاکھ  روپے کی ادائیگی  کی شرط   لگاکر کسی کو دس ہزار روپے  ماہانہ تنخواہ  کے عوض  ایک سال  کے لیے مثلاً استاد  کی ملازمت  پر رکھے   جو اپنے کام  یعنی  پڑھانے  کی تنخواہ  وصول کرے گا اور کام نہ کرنے  کی صورت  میں تنخواہ  کا حقدار نہیں  ہوگا ، لیکن  اسے ملازمت  کے حصول کے لیے ایک لاکھ  روپے بہر صورت  ادا کرنے ہوں گے  ،توملازمت  کے حصول کے لیے  ادا کی گئی  ایک لاکھ  روپے کی رقم رشوت ہوگی  جس کا لینا اور دینا شرعاً ناجائز  ہے۔

 ( ب) مذکورہ معاملہ  میں دوسری خرابی  یہ ہے کہ اس میں کلک کرنے والا ایک شخص کئی بار کلک  کرتا  ہے ، مثلا ً ایک کریڈٹ  پیک سے  پانچ سو تک کلک  ہوسکتے ہیں ۔ لیکن  اس سے یہ تاثر   دیاجاسکتا ہے  کہ اس اشتہار  کو دیکھنے والے  ( Viewers )  بہت سے ہیں  جو اشتہار  دینے والوں کی ریٹنگ   (Rating)  بڑھانے  میں معاون  ہوسکتا ہے ، حالانکہ  یہ بات خلاف  حقیقت ہونے کی وجہ سے  دھوکہ   دہی ہوگی  جو کہ جائز نہیں ۔

 ( ج)  تیسری خرابی  یہ ہے کہ اس عقد  اجارہ میں عمل  اور وقت  دونوں کو معقود  علیہ قرار دیاگیا ہے کیونکہ اس میں کلک  کی مجموعی  تعداد  ، اور کلک کرنے  کی مدت  دونوں کو بیان کیاگیا ہے ،ا وردونوں  میں کسی کی بھی خلاف  ورزی کی صورت  میں  ( یعنی کلک   نہ کرنے کی صورت میں،  اسی طرح  ساٹھ سے نوے  دن کےدورانیہ میں کلک  نہ کرنے کی صورت میں )  اجرت کا  نہ ملنا  طے شدہ ہے ۔ا ور یاہں صاحبین  ؒ کے قول  کے مطابق  وقت  کے بیان  کو تعجیل  کے لیےقرار  دینے کی بھی بظاہر   کوئی وجہ نہیں ہےکیونکہ  مذکورہ معاملہ   میں یہ بات واضح   ہے کہ مذکورہ  مدت  گزرنے  کے6 بعد کلک  کے ذریعہ  پیسے بنانے کا حق ختم ہوجائے گا، لہذا یہاں  عمل  اور وقت دونوں  کو ایک ساتھ  معقود  علیہ قرار دینے  کی خرابی  لازم  آرہی ہے  جس کی وجہ سے عقد اجارہ  شرعاً فاسد  ہے۔ لہذا ا س میں شریک  ہونا  درست  نہیں ۔

 (د) اور چونکہ یہ معاملہ  شرعاًناجائز ہے ، لہذا ا س میں دوسرے لوگوں  کو  شریک کرواکر  اس پر اجرت    ( کمشن )   لینا بھی جائز  نہیں ۔

 حاصل یہ ہے کہ مذکورہ  بالا خرابیوں  کی بناء پر  یہ معاملہ جائز نہیں  ہے ، لہذا  بحالت موجودہ اس میں سرمایہ   کاری کرنا ، یادوسرے  لوگوں کو  شریک کروانا  درست نہیں  ہے، خواہ  آپ کی نیت  اچھے کاموں میں خرچ  کرنے کی ہو۔ ( بدائع الصنائع  )

دارالافتاء جامعہ  دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/541590059543577/

اپنا تبصرہ بھیجیں