پے آڈر فروخت کرنے کا حکم

فتویٰ نمبر:448

سوال : پے آڈر چیک کرنا  فروخت کرنا کیسا ہے ؟ اس طور پر کہ زیدکے  ایک لاکھ  بینک میں تھے تو ا س نے د  س پے آڈر دس ہزار کے لیے  بنوالیے پھر عمر زید کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک  پے  دو آڈر تاکہ میرا وقت  اورآنے جانے کا خرچہ  بچ جائے  تو زید نے کہا ٹھیک ہے ، مگردس ہزار  کا پے  آڈر کی قیمت  کی ادائیگی  کے ساتھ ساتھ  مجھے دو یا تین   سوروپے اضافی چارجز ادا کرنا تو اس نے کہا ٹھیک ہے مطلوب  جواب یہ ہے کہ زید کے لیے اضافی پیسوں  کا لینا اور عمر کے لیے دیناکیسا ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

 پے آڈر کو  فروخت  کرنا جائز نہیں ، نہ نفع کے ساتھ نہ بغیر نفع کے کیونکہ  اس میں قرض کو ایسے  شخص پر فروخت  کیاجارہاہے  جس پر قرض  لازم نہیں ۔لہذا زید کے لیے  عمر سے اضافی پیسے لینا اور عمر  کے لیے دیناجائز نہیں ، ایمرجنسی  کی صورت  میں اس ضرورت  کو پورا  کرنے کی  صحیح صورت  یہ ہے کہ زید عمر سے دس ہزار  روپے  قرض لے لے اور اسے پے آڈر دے کر کہہ دے  بینک سے وصول کرلینا  ، لیکن اس  صورت کے صحیح ہونے  کے لیے شرط یہ ہے کہ زید اس  پر کسی قسم کا کمیشن  عمر  سے نہ لے ورنہ سود کے زمرے آئے گا ۔

“البحر الرائق شرح  کنزالدقائق ” (ج 15 / ص  38)

ولا ینفعد بیع الدین من غیر من علیہ الدین ۔

الدرا لمختار  للحصفکی ” ( ج 5/ص 477)

” ( ھی ای الحوالۃ ) لغۃ : النقل ، وشرعا : ( نقل الدین من ذمۃ المحیل الی  ذمۃ المحتال علیہ )  وھل توجب  البراءۃ من الدین المصحح ؟ نعم “۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ  اعلم  بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں