پلاٹنگ کا کاروبار کرنے والے زکوٰۃ کا حساب کیسے لگائیں؟

سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: (۱) زید زمین کا کاروبار کرتا ہے  کبھی پلاٹ فروخت کرتا ہے اور کبھی عمارت بنا کر مع عمارت کے پلاٹ فروخت کرتا ہے، پلاٹ فروخت کرنے کے بعد پلاٹ ہی لیتا ہے کبھی نہیں اور کبھی پلاٹ پر سال تمام ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا ہے، پلاٹ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو رأس المال موجودہ قیمت

اور منافع تینوں پر زکوٰۃ ہے یا ایک پر زکوٰۃ ادا کرنے کی آسان شکل کیا ہے؟

(۲) زید پلاٹ فروخت کرتا ہے قسطوں پر اَب کئی کئی سالوں میں پوری رقم آتی ہے اور لوگ وعدے کے مطابق قسطیں ادا کرتے ہیں، تو زکوٰۃ تمام مال پر ہوگی یا صرف حوالہ کی ہوئی رقم پر؟ مدلل ومفصل مذکورہ مسئلوں کی وضاحت تحریر فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) آپ کے لئے حکم یہ ہے کہ آپ جس قمری تاریخ کو زکوٰۃ کا حساب جوڑتے ہیں، اس دن آپ کی ملکیت میں جو روپیہ پیسہ ہو یا پلاٹ جس حالت میں ہو اُس کی موجودہ قیمت لگا کر زکوٰۃ کا حساب بنا لیا جائے اور ڈھائی فیصدی کے حساب سے زکوٰۃ دے دی جائے، اس میں سے ہر ر وپئے یا ہر پلاٹ پر سال گذرنا کوئی شرط نہیں؛ بلکہ اگر درمیان سال میں مال میں کمی بیشی ہوتی رہے تو اس سے زکوٰۃ کے حساب پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور جب پلاٹوں کی موجودہ قیمت جوڑی جائے گی تو منافع خود اُس میں شامل ہوجائیں گے۔

وشرط افتراض أدائہا حولان الحول، وہو في ملکہ۔ (الدر المختار ۳؍۱۸۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۵)

ولکن ہذا الشرط یعتبر في أول الحول وآخرہ لا في خلالہ، حتی لو انتقص النصاب في أثناء الحول ثم کمل في آخرہ تجب الزکاۃ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۹۹، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۵)

وأما المستفاد في أثناء الحول فیضم إلی مجانسہ ویزکی بتمام الحول الأصلي۔ (مراقي الفلاح ۳۸۹، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۵)

العبرۃ في الزکاۃ للحول القمري کذا في القنیۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۵)

(۲) آپ کے پاس قسطوں کے ذریعہ بعد میں آنے والی ہے وہ دین قوی کے درجہ میں ہے، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ زکوٰۃ کا حساب لگاتے وقت اگر وہ قرض وصول نہ ہو تو سردست اُس کی ادائیگی واجب نہ ہوگی؛ لیکن جب بھی وہ رقم ملے گی تو سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، اور اگر چاہیں تو ملنے سے پہلے بھی حساب لگا کر اُس کی زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں۔

فتجب زکاتہا إذا تم نصابًا وحال الحول لکن لا فورًا؛ بل عند قبض أربعین درہمًا من الدین القوي کقرض۔ (الدر المختار ۳؍۲۳۶ زکریا)

فما وجب بدلاً عما ہو مال التجارۃ، فحکمہ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن یکون نصابًا قبل القبض تجب فیہ الزکاۃ، ولکن لا یجب الأداء ما لم یقبض منہ أربعین درہمًا ، وفي الخانیۃ: ویعتد بما مضی من الحول قبل القبض في الصحیح من الروایۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۳۴۵-۲۴۶ رقم: ۴۲۵۶-۴۲۵۶ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۱۱؍۱۴۳۶ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں