قتل کے خوف سے اسقاط حمل کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:91

1) بعض اوقات کوئی خاتون (غیر شادی شدہ) گناہ کو چھپانے کے لیے تین یا چار ماہ کے حمل کا اسقاط چاہتی ہو۔ لوگوں کے اس ترغیب کے ساتھ کہ سخت  قبائلی علاقہ ہے اگر اسقاط نہ کیا تو حمل اور حاملہ دونوں ضائع ہوجائیں گے ۔کیا اس صورت میں کسی خاتون کی زندگی کو بچانے کے لیے حمل ساقط کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

    2)کچھ خواتین رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے حیض کو روکنے والی گولیاں استعمال کرتی ہیں تاکہ روزے حیض کی وجہ سے خراب نہ ہوں ۔ ایسی گولیاں کھانا  اس عذر پر جائز ہے یا ناجائز ہے؟

3) سفر کی روانگی سے پہلے  یا دوران ِ سفر حیض کو روکنے کے لیے گولی لینا جائز ہے یا ناجائز؟

الجواب حامدا ومصلیا

اگر واقعۃً اس بات کا قوی اندیشہ ہو کہ حمل کا پتا  چلنے پر حاملہ کو قتل کردیا جائے گا ، تو اس کی جان بچانے کے لیے اسقاطِ حمل کی گنجائش ہے بشرطیکہ حمل چار  ماہ سے کم کا ہو۔تا ہم اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل معاشرتی بے راہ روی کی وجہ سے لوگ برائی میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے اسقاط حمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔واضح ہو کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا ہرگز درست نہیں گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

2) مانع حیض گولیاں کھانے میں شرعا ًقباحت نہیں، تاہم حیض آنا عورت کے لیے طبی لحاظ سے مفید ہے اور اسے مصنوعی طریقے سے روکنا دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے ، اس لیے اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے ،لیکن اگر گولیوں کے ذریعے عورت کا حیض رکا رہا اور خون نہیں آیا  تو  اس دوران وہ پاک شمار ہوگی اور روزہ رکھنا درست ہوگا۔

3) شرعا ًگولیاں کھانا ممنوع نہیں۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/529233340779249/

اپنا تبصرہ بھیجیں