تمہید:
یہاں ایک اصولی بات سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ امم سابقہ یعنی گزشتہ قوموں کی تاریخ کے دوطرح کے مآخذ ہیں:ایک، قرآن وسنت۔دوسرے،یہود ونصاری یا دیگر ذرائع سے منقول تاریخ۔قرآن کریم اور صحیح احادیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان پر یقین تو ضروری ہے؛کیونکہ تواتر اور صحیح سند کی وجہ سے وہ معتبر قرار پاتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ بہت سی تفصیلات ، جن کا سراغ ہمیں یہود ونصاری کے محرف علوم یاتاریخ کی کتابوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔۔۔اور وہ قرآن وسنت کے صریح خلاف بھی نہیں۔۔۔ظاہر ہےلانصدق ولانکذب ، ان کی نہ ہم تصدیق کرسکتے ہیں، نہ ہی تردید!ہم نے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے واقعات کو مرتب کرتے ہوئے دونوں ہی قسم کے مآخذ سے مدد لی ہے، لیکن کوشش رہے گی کہ جو بات جس ماخذ سے لی جائے، اس کا حوالہ ضرور دیا جائے*
*پیدائش ِآدم علیہ السلام:*
ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔دنیا میں جنات کی حکومت تھی۔یہاں خون ریزی تھی۔دنگا فساد تھا۔نافرمانی اور کفروشرک کا غلغلہ تھا۔نیکی بہت کم تھی، بدی بہت زیادہ تھی۔خالقِ کائنات نے جنات سے دنیا کی حکومت لے کر ایک دوسری مخلوق کو دینا چاہی؛ تاکہ جنات کا غرور خاک میں ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اطلاع دی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جو اختیار وارادے کا مالک ہوگا اور میری زمین پر جس قسم کا تصرف کرنا چاہے گا کرسکے گا اور اپنی ضروریات کے لیے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکے گا گویا وہ میری قدرت اور میرے تصرف واختیار کا مظہر ہوگا۔فرشتوں نے جب یہ سنا تو حیرت میں رہ گئے اورا للہ کے حضور بطور سوال عرض کیا : اے خدا ئےبے نیاز ! کیا آپ ایسے کو پیدا کرناچاہتے ہیں جو زمین کو فساد اور خونریزی سے بھر دے گا ۔یعنی فرشتوں نے اس نئی مخلوق کو جنات پر قیاس کیا اور وہ یہ سمجھے کہ نئی مخلوق بھی جنات کی طرح بے حد سرکش اور نافرمان ہوگی۔ وہ بولے کہ ہم جماعتِ ملائکہ آپ کی تسبیح وتہلیل کے لیے کافی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: ” آدم ؑ کے پیدا کرنے میں جو جو حکمتیں ہیں تم ان سے واقف نہیں بلکہ ہم ہی خوب جانتے ہیں ۔”
سورۃ البقرہ میں اللہ نے اس بارے میں آیات نازل کی ہیں ۔
*یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسانوں میں بھی نافرمانی اور ظلم کا مادہ ہے لیکن یاد رہے کہ وہ جنات کے مقابلے میں کم ہے۔فی صد کا فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔یوں سمجھنا چاہیے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فرشتوں اور جنات کے بیچ کی معتدل مخلوق ہے۔*
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کا خمیر تیار ہونے سے قبل فرشتوں کو اطلاع دی :
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ( سورۃ البقرہ)
” (اے ملائکہ) میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔”
آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا اورا یسی مٹی سے گوندھا گیا جو نت نئی تبدیلی قبول کر نے والی تھی۔ جب یہ مٹی پختہ ٹھیکری کی طرح آواز دینے اور کھنکھنانے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس جسد خاکی میں روح پھونکی۔ ابھی روح ناک کے نتھنوں سے داخل ہوکر دماغ تک پہنچی ہی تھی کہ آدم علیہ السلام کو چھینک آئی ۔اسی وقت آدم ؑ کو اللہ پاک کی طرف سے الہام ہوا کہ اس چھینک کے جواب میں “الحمد للہ ” کہو ۔ آدم ؑ نے چھینک لیتے ہی “الحمد للہ ” کہا ۔ جس کے جواب میں عرش معلیٰ سے “یر حمک اللہ ” یعنی ” اللہ تجھ پر رحم کرے گا ” جواب آیا ۔ (حدیث)
پھررفتہ رفتہ روح آدم ؑ، حضرت آدم علیہ السلام کے تمام جسد خاکی میں سرایت کرگئی یوں وہ مٹی کا پتلا یک بیک گوشت پوست ، ہڈی ، پٹھے کا زندہ انسان بن گیا اورارادہ ، شعور ، حس ، عقل ا ور وجدانی جذبات وکیفیات کا حامل نظر آنے لگا ۔
تعلیم آدم علیہ السلام:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا
اور ( اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ) آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھادیے۔
پھر اللہ پاک نے فرمایا :
اَنبؤنِىْ بِاَسْمَاءِ ھٰٓؤُلَاءِ ( سورۃ البقرہ )
یعنی ” اے ملائکہ !ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
فرشتوں کو بھی خبر تک نہ تھی کہ ان چیزوں کے کیاکیا نام ہیں؟ کائنات کی تمام اشیاء فرشتوں کے سامنے پیش ہیں اور ان کے نام ان معصوموں سے دریافت ہورہے ہیں یہ کیوں ؟
یہ صرف آدم علیہ السلام کا اعزاز بڑھانے کے لیے ۔
چنانچہ اس عظیم سوال پر سارے فرشتے عاجز ہوئے اور سب نےا نکساری سے عرض کیا !
اے پاک پروردگار! تیری ذات خوب واقف ہے کہ ہم ا ن چیزوں کے نام نہیں جانتے تو بس وہی علم ہے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھا ہے یعنی ذکر خدااور تسبیح الٰہی اور فی الحقیقت تو ہی سب چیزوں کا جاننے والا ہے اور بڑا حکمت والا ہے ۔
*آدم علیہ السلام کے اس شرفِ علم کے متعلق مفسرین کی متعدد آرا ہیں:*
1۔ ایک یہ کہ کائنات کی وہ تمام اشیاء جو ماضی سے مستقبل تک وجود میں آنے والی تھیں ان سب کے نام اور ان کی حقیقت کا علم حضرت آدم ؑ کو دیا گیا ۔
2۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس وقت جس قدر اشیاء وعالم کا ئنات میں موجود تھیں ان سب کا علم عطا کیاگیا ۔
3۔ زمین میں رہائش اور یہاں حکومت کرنے کے لیے جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ سب علوم عطا کیے گئے۔طب، انجینئرنگ ، ہندسہ ، سب علوم دیے گئے۔
4۔انسانوں کے اندر غصہ، شہوت، بھوک، حسد، تکبر، الغرض بہت سی باطنی کیفیات واحساسات ہیں جنہیں انسان ہی سمجھ سکتے ہیں، فرشتوں کے اندر وہ فیلنگزیا جذبات نہیں ہیں، اس لیے وہ اس کے نام اور کیفیات بتا بھی نہیں سکتے۔
بہر حال حضرت آدم علیہ السلام کو صفتِ علم سے اس طرح نوازا گیا کہ فرشتوں کے لیے بھی ان کی برتری اور استحقاقِ خلافت کے اقرار کے علاوہ چارہ کار نہ رہا اور یہ ماننا پڑ اکہ اگر ہم زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ بنائے جاتے تو کائنات کے تمام بھیدوں سے ناآشنا رہتے۔
“اللہ نے کہا :آدم !تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتادیے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے۔” (البقرۃ: آیت 33)
فرشتوں کو سجدے کا حکم :
جب حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری تمام جنات وملائکہ پر آشکارا اور ظاہر ہو گئی تو اب آدم علیہ السلام کا اعزاز اور بڑھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا :
اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ( سورۃا لاعراف 11)
آدم علیہ السلام کو سجدہ کروتوفوراً تمام فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی اور سجدہ میں گرپڑے۔سوائے شیطان کے وہ سجدے میں نہ جھکا ۔
اس سے متعلق قرآن میں متعدد بار آیات آئی ہیں ۔
سورہ اعراف میں ہے:
“اور ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔”
سورۃ الحجر میں ہے:
” ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔اور جنات کو اس سے پہلے ہم نے لو کی آگ سے پیدا کیا تھا۔اور وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا کہ : میں گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔لہذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔چنانچہ سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔” (الحجر)
سورہ کہف میں ہے:
” اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ : آدم کے آگے سجدہ کرو۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ جنات میں سے تھا، چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم میرے بجائے اسے اور اس کی ذریت کو اپنا رکھوالا بناتے ہو۔ حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں؟
ڈارون کا نظریہ غلط ہے:
ان آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان پہلے دن سے ہی انسان ہے۔یہ نظریہ کہ انسان پہلے بندر یا کچھ اور تھا، ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بن گیا، بے بنیاد نظریہ ہے۔ڈارون کے اس نظریے کو ملحدین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ، لیکن جدید تحقیقات اور آثار قدیمہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان پہلے سے ہی انسان رہا ہے۔ ارتقاء انسانی علم وشعور میں ہواہے، انسان کی ساخت اور قالب میں نہیں۔
ابلیس کا تعارف :
اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے ہزاروں سال پہلے ایک مخلوق آگ سے پیدا کی جسے جنات کہتے ہیں، جنات کی قوم میں ایک بزرگ تھا جس کا نام عزازیل تھا ، کہاجاتا ہے کہ عزازیل ہی جنات کا جدامجد ہےجس طرح آدم علیہ السلام انسانوں کے جد امجد ہیں۔ عزازیل بہت عبادت گزار اور اللہ کا نہایت فرمانبردارجن تھا۔ وہ جنت میں نور کے منبر پر بیٹھ کر فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا اور بڑے بڑے فرشتے اس کے شاگرد ہوا کرتے تھے۔
جب عزازیل کی دانائی اورعبادت زمین و آسمان میں اچھی طرح آشکار ا ہوگئی تو عزازیل کو یقین ہوگیا کہ میں حقیقت میں کوئی اعلیٰ اعزاز کے قابل ہو ں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں نہ کوئی مجھ سے زیادہ عالم ہے نہ کوئی مجھ سے زیادہ زاہد۔اوراگر ہیں بھی تو میں ان کا سردار ہوں نیز عزازیل کو خود پر غرور ہوچلاتھا۔
ابلیس کی نافرمانی :
اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرو! تو تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ” الا ابلیس ” مگر عزازیل جس کا لقب آج سے ابلیس ہوتا ہےا س نے سجدہ نہیں کیا۔ لکھا ہے کہ جب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تو پورے سو برس تک تمام ملائکہ سجدے میں پڑے رہے پھر جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تودیکھا کہ عزازیل یعنی ابلیس حضرت آدم ؑ سے منہ موڑے اکڑا ہوا کھڑا ہے اوراس کا سارا منہ سیاہ ہورہاہے ۔ جوآج سے پہلے نہایت خوب صورت تھا وہ آج ایک خوفناک دیو کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ ابلیس کی یہ بری حالت دیکھ کر تمام ملائکہ خوف خداوندی سے پھر سجدے میں گرے جس میں انہوں نے اپنی اطاعت اور اپنی خیریت پر لاکھ لاکھ شکر ِ خداوندی ادا کیا یہاں جناب حضرت محمد ﷺ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ دو سجدے فرشتوں کے اتنے پسندآئے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نےا پنے تمام بندوں پر نماز میں دو سجدے فرض کئے کہ ایک فرمانبرادی کا اوردوسرا فرمانبرداری کےا دا کرنے کا شکریہ کا ۔(واللہ اعلم بالصواب)
جب تمام فرشتے سجدے سے اٹھے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا :
اےا بلیس ! آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اللہ تعالٰی اگرچہ عالم الغیب ہیں اور دلوں کے بھیدوں سے خوب واقف ہیں اور ماضی ، حال اورمستقبل سب اس کے لیے یکساں ہیں ، مگر اللہ نے دوسروں کو دکھانے کے لیے ابلیس کے امتحان وآزمائش کےلیے یہ سوال کیا۔اس سوال پرا بلیس نے جواب دیا :
اے اللہ ! میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو خاک سے ۔پھر میں آگ کا بنا ہوا خاک کے پتلے کو کیوں سجدہ کروں؟
کتب وتفاسیر وتواریخ میں مرقوم ہے کہ ابلیس نے صرف اس زعم میں یہ نافرمانی کی کہ آدم علیہ السلام کی اصلی اعلیٰ اور افضل نہیں ہے یعنی مٹی آدم علیہ السلام کی اصل ہے ا ور وہ آگ کی پیداوار!
مگر بد بخت شیطان اپنے غرور وتکبر میں یہ بھول گیا کہ وہ خود اورآدم علیہ السلام دونوں خدا کی مخلوق ہیں تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر وہ مخلوق خود بھی نہیں جان سکتی وہ اپنے غرور وتکبر میں یہ بھی بھول گیا بلکہ یہ سمجھنے سے قاصررہا کہ مرتبےکی بلندی اورپستی اس مادہ کی بنا پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیرتیار کیاجائے ،بلکہ اس کی ان صفات پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں ۔یوں بھی مٹی کے اندر عاجزی کی صفت ہے جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہے،جبکہ آگ کے اندر بلندی اور بڑائی کی صفت ہے جو اللہ تعالی کو پسند نہیں۔
بہر حال شیطان کا جواب چونکہ غرور وتکبر پر مبنی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پرواضح کردیا کہ کبر ونخوت نے تجھ کو اس قدر اندھا کردیاہے کہ تو اپنے خالق کے حقوق واحترام سے بھی منکر ہوگیااس لیے مجھ کو ظالم قرار دیا اور یہ نہ سمجھا کہ تیری جہالت نے تجھ کو حقیقت کوسمجھنے سے قاصر کردیا ۔ پس تو اب اس سر کشی کی وجہ سے ابدی ہلاکت کا مستحق ہے اور یہی تیرے عمل کی قدرتی پاداش ہے ۔
سورۃ الحجر میں ہے :
قَالَ يٰٓاِابْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ ( 32 )
اللہ نے کہا : ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟
قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ( 33)
اس نے کہا : میں ایسا گرا ہوا نہیں ہوں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ ( 34)
اللہ نے کہا : اچھا تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو مردود ہوگیا ہے۔
چنانچہ ابلیس کالباسِ بزرگی وکرامت اتارلیاگیا اور اس کو لعنت وپھٹکار کا جامہ پہنادیا گیا اور ملعون کر کے مقام ِقرب سے نکال دیاگیا ۔ لکھا گیا ہے کہ ابلیس کا حسن وجمال ملائکہ سےبہت اچھا تھا۔وہ نہایت نورانی صورت تھا، مگر آج غرورونافرمانی کے سبب ایسی صورت ہوگئی کہ جو دیکھتا تھا وہ اس پر لعنت ملامت کرتاتھا۔
طلب ِمہلت اور دعوی:
جب ابلیس کو ملعون کرکے جنت سے نکالا جانے لگا تو ابلیس نے توبہ وندامت کے بجائے اللہ سے یہ استدعا کی اے اللہ ! اگرتو مجھے اپنی حضوری سے نکالتا اور جنت سے محروم کرتا ہی ہے تو مجھے یہ مہلت دی جائے کہ میں تا قیامت زندہ رہوں۔اس نے دو مطالبے کیے: ایک بہت بڑی زندگی اور اختیارات کا۔ دوسرا موت نہ آنے کا۔انظرنی الی یوم یبعثون کا مطلب یہی ہے کہ قیامت کا دوسرا صور جس سے سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے جس کے بعد کوئی مرے گا نہیں، اس وقت تک مہلت دیجیے۔اللہ تعالی نے اسے اختیارات دیے اور مہلت بھی دی،لیکن مہلت دوبارہ اٹھائے جانے تک نہیں دی بلکہ فرمایا: الی یوم الوقت المعلوم یعنی تجھے ایک مقررہ وقت تک مہلت ہے۔ بظاہر اس سے مرادقیامت کا پہلا صور پھونکے جانے تک ہے۔
یہ سن کر اس نے پھر ایک مرتبہ اپنی شیطانیت کا مظاہرہ کیااور کہنے لگا : جب تو نے مجھے راندہ درگاہ کرہی دیا تو میں بھی جس آدم کی بدولت یہ رسوائی نصیب ہوئی ہے اس کو اورکی اولاد کو رسوا کروں گا اور ہر طرح سے ان کوگمراہ کروں گاا ور ان کی اکثریت کو تیرا ناشکرا بنا کر چھوڑوں گا،مگر تیرے ” مخلص بندے” میرے تیرسے گھائل نہ ہوسکیں گے اور ہر طرح سے محفوظ رہیں گے ۔
اللہ تعالی کا جواب:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابلیس کو یہ جواب دیا گیا:
”ہماری فطرت کا قانونِ مکافات ِعمل اٹل قانون ہے۔ جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا ۔ جو بنی آدم تیری پیروی کرے گا وہ تیرے ساتھ ہی جہنم کا سزاوار ہوگا ۔ جا۔۔۔اپنی ذلت ورسوائی اور شومئی قسمت کے ساتھ یہاں سے دور ہو اورا پنی اور اپنی پیرووں کی ابدی لعنت ( جہنم ) کا منتظر رہ !
جنت میں قیام اور زوجیت :
حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنتی لباس پہنایا اور جنت میں داخل فرمایا۔ یہ جنت کشمیر یا دنیا کی کوئی اور جگہ نہیں ، بلکہ اصلی جنت تھی جو اوپر آسمانوں میں ہے۔آپ جنت میں جہاں چاہتے گھومتے، جو چاہتے کرتے ،لیکن ساتھ میں خود کو اکیلا محسوس کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بی بی حوا علیہا السلام کو آپ کی بائیں طرف کی پسلی سے پیدا کیا ۔جس وقت بی بی حوا پیدا ہورہی تھیں، فرشتوں سے پردہ کرایا گیا۔ بی بی حوادنیا کی نہایت خوب صورت خاتون تھیں۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سو کر اٹھے تو پوچھا :تم کون ہو انہوں نے کہا : اللہ نےمجھے آپ کے لیے پیدا کیا کہ آپ مجھ سے سکون حاصل کرسکیں اورآپ کی تنہائی ختم ہوسکے ۔
وہ دونوں خوشی سے جنت میں رہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم جہاں جاناچاہو جاسکتے ہو، جو کھانا ہے کھاسکتے ہو، بس ایک درخت کا پھل کھانے کے لیے منع کیا کہ اگر کھاؤ گے تونقصان اٹھاؤگے ۔ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکال دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔
وہ درخت کون سا تھا؟ مشہور ہے کہ وہ گندم کا درخت تھا،ایک قول انگور کا ہے۔اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حوالے سے چھ اقوال ملتے ہیں اور سب سے بہترین بات یہ ہے کہ جس چیز کو ذکر کرنے کی اللہ نے ضرورت نہیں سمجھی ہمیں بھی اس کے پیچھے زیادہ نہیں پڑنا چاہیے!
ادھر ابلیس کوایک پل چین نہیں آرہا تھا ۔اس نے بی بی حوایعنی عورت ذات کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ابلیس نے بی بی حوا کو بہکانا شروع کردیا۔وسوسہ ڈالنے لگا کہ اس درخت کا پھل کھالو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ کھالو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہ پاؤ گے فرشتوں کی طرح، ورنہ تم مرجاؤگے۔ کہاجاتا ہے کہ شیطان سانپ کے ساتھ مل کر جنت میں گیا اور سانپ کی صورت میں ان سے بات کی۔اللہ کے نام کی قسمیں کھائیں اور قسمیں کھاکر یقین دلایا کہ اللہ نے اس درخت سے شروع شروع میں روکا تھا اس لیے کہ اس وقت تمہاری نئی نئی پیدائش ہوئی تھی، تمہارا جسم اسے برداشت نہیں کرسکتا تھا،اب ایک عرصہ ہوگیا ہے ، اب تم مضبوط ہوچکے ہو، اب اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بی بی حوا اس کی باتوں میں آگئیں، وہ سمجھ رہی تھیں کہ اللہ کے نام کی قسم کھاکر کوئی غلط بات نہیں کرسکتا، بی بی حوانے حضرت آدم علیہ السلام کو قائل کرلیا کہ اس درخت کو کھانا پہلے ہمارے لیے درست نہ تھا لیکن اب درست ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سمجھے کہ اللہ تعالی کی یہ نہی، نہی تشریعی نہیں بلکہ نہی شفقتا تھی۔ اللہ تعالی کے ارشاد کے کچھ اہم الفاظ آپ اس وقت بھول گئے، یہ بھی یاد نہ رہا کہ خود انسان فرشتوں سے افضل ہے، درخت کھاکر فرشتہ بننے کی کیا ضرورت !!! ان فطری کمزوریوں کی وجہ سے آپ سے یہ اجتہادی خطا ہوگئی۔ بہرحال! دونوں ابلیس کے بہکاوے میں آگئے اورایک دن انہوں نے وہ پھل کھالیا ۔ جیسے ہی انہوں نے پھل کھایا تو سب سے پہلے ان کے کپڑے اتر گئے ۔شیطان کو معلوم تھا کہ اس درخت کی تاثیر یہ ہے کہ جو اسے کھاتا ہے ، بےلباس ہوجاتا ہے۔گویا شیطان نے انسان پر جو پہلا وار کیاہے وہ یہی بے لباسی کا وار تھا۔خواتین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔الغرض !وہ دونوں شرم سے ادھر ادھر بھاگنے لگے ،انہیں احساس ہو گیاتھا کہ ہم سےا للہ کی نافرمانی ہوگئی ہے ،لیکن ظاہر ہے حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اجتہادی خطا تھی۔نافرمانی کا تصور تک ان کے دل میں نہ تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نےا ن کو آواز دی اور کہا : ” کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیاتھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔کیا میں نے نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ؟”
جنت سے نکلنا :
اب اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے اتر نے کا حکم دیا اور فیصلہ فرمایا: تم انسان اور شریر جنات زمین پر بھیجے جارہے ہو، تم زمین میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔قیامت تک تم ایک دوسرے کے خلاف رہوگے۔اس دوران جو میرے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شیطان کے راستے پر چلے گا وہ جہنم میں جائے گا۔تمہیں ایک وقت تک دنیا میں رہنا ہوگا، فائدےا ٹھانے ہوں گے۔ تم یہیں زندگی بسر کروگےا ور یہیں مروگے اوریہیں سے ہی دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔
دنیا میں آمد:
کہاجاتا ہے کہ حضرت آدم کا قد بہت بڑا تھا۔ شاید جنت کے ساٹھ گز برابر۔ جب آسمان سے نیچے اتارا جارہا تھا تو وہ درازی کی وجہ سے فضا میں لہرارہے تھے۔ اللہ تعالی نے دراز قد کو مختصر کردیا اور آپ دنیا کے ساٹھ گز برابر ہوگئے اور سیدھے اترنے لگے۔(درمنثور)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم وحوا دونوں کو الگ الگ مقامات پر اتارا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کو ” کوہ ہند ” میں اور حوا علیہا السلام کو ” جرا “میں ۔ دونوں بہت شرمندہ تھے۔انہوں نے اپنی غلطی پر توبہ کرنا چاہی لیکن الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے ۔ اللہ نے انہیں یہ کلمات سکھائے : رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْتَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ( سورۃ الاعراف)
اے ہمارے پروردگار ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔
جب انہوں نے یہ کلمات کہے تو اللہ نے انہیں معاف کردیا اوروہ عرفات کے میدا ن میں ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہیں سے دنیا میں انسانیت کے دور کا آغاز ہوا۔
حضرت حوا علیہا السلام نے بیس بار ولادت کی تکلیف اٹھائی ۔ ہر بارجڑواں بچے پیدا ہوتے تھے ایک لڑکا ایک لڑکی ۔ جو ایک ساتھ پیدا ہوتے تھے وہ سگے بہن بھائیوں کی طرح ہوتے۔ان کی شادی نہیں ہوسکتی تھی ۔جو الگ الگ پیدا ہوتے تھے ان کی شادی ہوسکتی تھی۔انسانی آبادی کے لیے اس وقت اللہ تعالی نے یہی حکم بطور شریعت نازل فرمایا تھا۔اس طرح بی بی حوا نے کل چالیس بچوں کو جنم دیا۔
حضرت آدم علیہ السلام نبی ہیں، لیکن تشریعی نبی نہیں ، بلکہ ان نبیوں میں سے ہیں جو دنیا کی شروعات میں “تعلیم ِانسان” کے لیے بھیجے گئے۔حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وہ سب سکھایا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا ۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ۔ کھیتی باڑ ی کرتے اور جانوروں کو پالتے ۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
“اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ۔”
حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے دو بیٹے قابیل اورہابیل بھی ہوئے۔ قابیل کے ساتھ جوبیٹی پیدا ہوئی تھی وہ خوب صورت تھی ،جبکہ ہابیل کے ساتھ جو بیٹی پیدا ہوئی تھی وہ خوب صورت نہیں تھی۔ قابیل نےحضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنی جڑواں بہن سے شادی کرے گا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی شریعت کے مطابق منع کردیا کیونکہ اللہ نے ا س کی اجازت نہیں دی تھی ۔ قابیل اپنے برتاؤ میں بھی سخت تھا وہ کھیتی باڑی کرتا تھا۔آج بھی کھیتی باڑی کرنے والوں کے مزاج سخت ہوتے ہیں۔ جبکہ ہابیل بہت نرم مزاج تھے وہ بکریاں چراتےتھے ۔بکری عاجز جانور ہے۔اس کے ساتھ رہنے سے انسان کے اندر عاجزی پیدا ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔
قابیل اڑگیا۔حضرت آدم ؑ نے اشارہ خداوندی سےفیصلہ فرمایا کہ تم دونوں اپنی قربانی اللہ کے سامنے پیش کرو جس کی قربانی اللہ تعالیٰ قبول کریں گے وہ اپنے موقف میں صحیح ہوگا ۔ا س زمانے میں جب اللہ کے لیے قربانی کی جاتی تو آسمان سے ایک آگ آتی جس کی قربانی وہ آگ کھالیتی ا س کی قربانی قبول ہوجاتی ۔
ہابیل نیک اور مخلص انسان تھے۔انہوں نے اپنی گلے کے سب سے اچھےجانور کو قربانی کے لیے پیش کیا جبکہ قابیل نے سب سےگھٹیا پھل نذرانے میں دیے۔ آگ آئی اور ہابیل کی قربانی کو کھالیا۔ہابیل کی جیت ہوئی اور قابیل کو شکست۔فیصلہ ہوگیا کہ ہابیل متقی اور نیک انسان ہے اور وہ اپنے موقف میں درست ہے۔ قابیل کو حسد ہونے لگا۔بجائے نیکی اور تقوی کا راستہ اختیار کرنے کےوہ شیطان کے جال میں پھنستا چلاگیا۔ اسے ہابیل پربہت غصہ آنے لگا۔اس نے ٹھان لی کہ وہ ہابیل کو قتل کرکے رہے گا۔ ایک دن موقع پاکر اس نے ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں ختم کردوں گا۔ ہابیل نے کہا میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۔ میں مظلوم بننا پسندکروں گا۔ ظالم بننا نہیں۔ قابیل نے ہابیل کے سر پر بڑا سا پتھر مارا جوان کی #موت کا سبب بنا۔ یہ #دھرتی پر پہلا انسانی قتل بھی تھااور پہلی موت بھی۔قابیل نے قتل کا #جرم کرلیالیکن اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہابیل کی لاش کا کیا کرے؟ کیونکہ ابھی تک کسی کی موت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اسی شش وپنج میں تھا کہ اللہ تعالی نے ایک کوے کے ذریعے اسے مردہ دفنانے کا طریقہ سمجھایا۔ایک کوا اپنے ساتھی کو زمین میں گڑھا کھود کر دفنارہا تھا۔قابیل بہت شرمندہ ہوا۔اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ میں تو کوے سے بھی گیا گزرا ہوں۔کوا تدفین کا طریقہ جانتا ہے ، میں نہیں۔قابیل نے گڑھا کھودااورہابیل کو دفنادیا۔ اس کے بعدقابیل جس سے شادی کرنا چاہتا تھا اسے لے کر حضرت آدم ؑ سے بہت دور نکل گیا۔حضرت آدم ؑکے ساتھ جتنے لوگ تھے ان میں سےت جو جو شیطان کے بہکاوے میں آتے گئے وہ قابیل سے ملتے گئے۔حضرت آدم علیہ السلام کو جب ہابیل کے قتل کے بارے میں پتا چلا تو آپ کو بہت صدمہ ہوا۔
حضرت آدم علیہ السلام کی اصل عمر ایک ہزار برس تھی۔اپنی عمر کے چالیس سال آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو دینے کا کہہ دیا تھا۔اس لیے آپ کا انتقال نوسو ساٹھ برس کی عمر میں ہونے والا تھا۔جب حضرت آدم ؑ نوسوساٹھ سال کے ہوگئے تو بچوں سے کہا مجھے جنت کے پھل کھانے کی خواہش ہورہی ہے سارے بچے ادھر ادھر پھیل گئے پھل ڈھونڈنے کے لیے ۔ راستے میں ان کو موت کے فرشتے ملے جو انسانی شکل میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ واپس جاؤ!حضرت آدم ؑکی موت کا وقت قریب ہے۔ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی روح قبض کی۔ غسل دیا۔ خوشبو لگائی اوردفنادیا۔ آپ کی موت کے بعد حضرت شیث علیہ السلام کے سر پر نبوت وخلافت کا تاج سجایا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے ایک سال بعدحضرت حواؑ کابھی انتقال ہوگیا ۔
طبری اور ابن الاثیر کی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو کعبہ بنانے کا حکم دیا اور حضرت جبرئیل نے انھیں مناسک ادا کرنے کے طریقے بتائے۔ بقول یعقوبی جبل ابوقیس کے دامن میں مغارۃ الکنوز “خزانوں کے غار” میں آپ کی تدفین ہوئی۔
• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سعودی عرب میں مسجد خیف کے صحن میں ہے۔
• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سعودی عرب کی مسجد خیف کے اندر واقع ہے۔
• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سری لنکا میں اترنے کے مقام پر واقع ہے۔
• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک عراق میں واقع ہے۔
ترتیب وپیشکش:
محمدانس عبدالرحیم