قصہ حضرت نوح علیہ السلام

قرآن مجید بہت سی آیات میں نوح کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور مجمو عی طور پر قرآن کی انتیس سورتوں میں اس عظیم پیغمبر کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ان کانا م۴۳مرتبہ قرآن کریم میں آیاہے۔

مورخین ومفسرین نے لکھا ہے کہ نوح علیہ السلام کا نام ”عبد الغفار“ یا “عبد الملک “یا ”عبد الاعلی“ تھا اور ”نوح“ کا لقب انہیں اس لیے دیا گیا ہے ، کیونکہ وہ سالہا سال اپنے اوپر یا اپنی قوم پر  نوحہ و  گریہ کرتے رہے۔آپ کے والد کا نام ”لمک“ یا ”لامک“ تھا۔

نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ آپ نے تقریباً 950 سال تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا مگر آپ کی قوم کا جواب یہ تھا کہ آپ بھی ہماری طرح عام آدمی ہیں اگر اللہ کسی کوبطورِ رسول بھیجتا تو وہ فرشتہ ہوتا۔ صرف 80 لوگوں نے ان کا دین قبول کیا۔ نوح علیہ السلام تمام رسولوں میں سب سے پہلے رسول تھے۔ جنہیں زمین میں مبعوث کیا گیا تھا۔

نوح علیہ اسلام نےان کے عذاب کی بد دعا فرمائی جس کے نتیجے میں ان پر سیلاب کا عذاب نازل ہوا۔ اللہ تعالٰی نے آپ کی قوم پر عذاب بھیجا اور آپ کو ایک کشتی بنانے اور اس میں اہل ایمان کو اور ہر چرند پرند کے ایک جوڑے کو رکھنے کو کہا۔ تب طوفان کی شکل میں عذاب آیا اور سب لوگ سوائے ان کے جو حضرت نوح کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار تھے ہلاک ہو گئے۔

 حالات زندگی:

آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد ان کی اولاد دنیا میں خوب پھلی پھولی  لیکن ایک مدت گزر جانے کے بعد وہ لوگ خدا کو بھول چکے تھے اور ایک خدا کی بجائے انہوں نے مٹی اور پتھر کے کئی خدا بنالیے تھے  نہ صرف ان کی عبادت گاہیں بتوں سے اٹی پڑی تھیں بلکہ ہر گھر میں بت رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کیا کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے احسانات جتلا کر سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور اس بری راہ سے منع فرمایا  ان لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کا  مذاق اڑایا اور کہا :بھلا یہ بتاؤ کہ تم نبی کیسے بن گئے؟ تم تو ہمارے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے ہو اور ہم میں ہی پیدا ہوئے ہو  تم میں ایسی کون سی چیز ہے  جس سے ہم تمہیں نبی سمجھیں اور اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو وہ کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیج دیتا۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات جتلائے اور کہا تم کو چاہیے کہ ان بے کار بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرو اور میں اس کی تم سے کوئی  اجرت نہیں مانگتا، تمہاری ہی بھلائی کے لیے تم کو نصیحت کرتا ہوں۔ نوح علیہ السلام نے کوئی ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں وعظ و تبلیغ کی اور کوشش کی کہ وہ خدائے واحد کے سچے پرستار بن جائیں مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ حضرت نوح علیہ السلام وعظ فرماتے تو ان کومذاق مستی میں اڑاتے، کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ ان کی آواز کانوں میں نہ پہنچ جائے  صرف چند لوگ تھے جو آپ پر ایمان لائے۔ قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اے اللہ، میں تو اس قوم سے تنگ آگیا ہوں، اب تو ہی ان سے بدلہ لے۔

 کشتی نوح:

اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک کشتی بناؤ اور یہ بھی حکم دے دیا کہ دیکھنا اب کسی کی سفارش نہ کرنا، اب ان پر ضرور عذاب نازل ہوکے رہے گا حضرت نوح علیہ السلام خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں لگ گئے۔جب آپ کشتی بنارہے تھے تو قوم کے لوگ اس کا مذاق اڑارہے تھے   طعنے کس رہے تھے کہ کل تک تبلیغ کررہے تھے  آج بڑھئی بن گئے ہیں۔کبھی کہتے کہ کشتی تو بنارہے ہو،لیکن  دریا کہاں سے لاؤگے کشتی چلانے کے لیے!

حضرت نوح علیہ السلام اپنے کام میں لگے رہے۔جب کشتی بن کر تیار ہوگئی تو خدا نے حکم دیا کہ اپنے اہل اور ان لوگوں کو کشتی پر سوار کرلو جو مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں رکھ لو۔

قوم نوح پرعذاب:

جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی  زمین پر پانی بڑھنے لگا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔ پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔ اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کرلیا۔ اب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ  تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہوگئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے  اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے  ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔
نوح علیہ السلام کی  اولاد:
نوح علیہ السلام کے تین بیٹے طوفان میں بچ گئےتھے کیونکہ وہ مسلمان تھے: ”حام“ ”سام“ “یافث” ۔موٴرخین کا نظریہ ہے کہ کرہ زمین کی اس وقت کی تمام نسلِ انسانی کی بازگشت انہی تینوں فرزندوں کی طرف ہے ۔ایک گروہ ”حامی“ نسل ہے جو افریقہ کے علاقہ میں رہتےہیں۔ دوسرا گروہ ”سامی “نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قریب کے علاقوں میں رہتے ہیں اور ”یافث “ کی نسل کو چین میں آبادسمجھتے ہیں۔
مزار نوح :
آذربائیجان میں موجود ایک مزار ہے جس کے متعلق آذربائیجان میں مشہور ہے کہ یہ حضرت نوح کی قبر مبارک ہے (اگرچہ قبر نوح کے مقام کے متعلق کئی روایتیں ہیں۔)
طوفان نوح تمام کرہ ارض پہ آیا تھا یا خاص خطے پر ؟
قدیم ماہرین فلکیات کے مطابق یہ طوفان تمام کرہ ارض پر نہیں آیا تھا بلکہ ایک خاص خطہ تک محدود تھا ،جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ تمام کرہ ارض پر حاوی تھا ۔زمین پر ایسے متعدد طوفان آئے جن میں سے یہ ایک تھا عرب ( جہاں قوم نوح آباد تھی ) کی اس سرزمین کے علاوہ بھی بہت سے مقامات میں بلند پہاڑوں پر ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیا ں بکثرت پائی گئی ہیں جن سے متعلق علم طبقات الارض یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف پانی میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان بات کو دیکھتے ہوئے اہل تحقیق کی یہ رائے ہے کہ طوفان تمام کرہ ارض پرآیا تھا ۔
جودی پہاڑ :
قرآن کریم کے مطابق کشتی نوح جودی پہاڑ پر آکر ٹھیری تھی۔جودی پہاڑ مشرقی ترکی میں واقع برف سے ڈھکی ایک چوٹی ہے ۔ آرمینیاکی سرحد سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
نوح ؑ کی کشتی  شبہات کا جواب :
نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پہ آکر ٹھیرگئی تھی ۔1977 میں ترکی کےاس پہاڑ پر کچھ مہم جووں نےاس کشتی کو دریافت کیا۔اخبارات میں اس کی تصاویرشائع ہوئیں تو یہودیوں،عیسائیوں اور ملحدین کےدرمیان ایک نئی بحث چھڑگئی۔ملحدین اور روشن خیالوں نے اس پر چار بڑے اعتراض اٹھائے،یہود ونصاری اس کا جواب نہ دے سکے۔مگر قربان جائیے کہ قرآن مجید میں ان کے تمام اعتراضات کا جواب پہلے سے موجود ہے۔
 پہلا اعتراض :
بغیر کسی ٹیکنالوجی کے چھ ہزار سال قبل ایسی عظیم الشان کشتی بنانا کیسے ممکن ہوا جو اتنا وزن اٹھا کر لمبے عرصے تک سمندر میں سفر کرتی رہی ؟
 جواب: وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿١٣﴾
اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر سوار کر لیا۔
تحقیق کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلوں اور تختوں کے آثار ملے ہیں۔کیلوں اور تختوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا۔ اللہ جل شانہ نے نوح علیہ السلام کو اس کا علم عطا فرمادیا تھا۔
دوسرا  اعتراض :
اس زمانے میں اتنی بڑی کشتی کیسے بنائی جاسکتی تھی جس میں دنیا بھر کے جانوروں کے جوڑے سوار ہوئے ؟
 جواب :حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿ہود:آیت نمبر٤٠﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک ماده) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان ﻻنے والے بہت ہی کم تھے۔
یعنی یہ کشتی کوئی عام کشتی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی کشتی تھی۔یہ کشتی تین منزلہ ہے اور بہت لمبی چوڑی ہے۔ اس میں پانچ سو بائیس ریل کے ڈبے سوار کیے جاسکتے ہیں۔ پچیس ہزار جانوروں کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے اتنے جانوروں کا سماجانا بالکل درست ہے۔
تیسرا  اعتراض :
اتنی بڑی کشتی اتنے عظیم طوفان میں بغیر لنگر کے کیسے تیر سکتی ہے ؟
 جواب : وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٤١﴾ سورہ ہود
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے  یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے۔
حیرت انگیز طور پر جس پہاڑ پریہ کشتی ٹھیری ہے اس کی نیچے وادی میں چٹانوں کے نیچے بڑے بڑے لنگر دریافت ہوئے ہیں وہ اسی کشتی کے لنگر ہیں۔
چوتھا اعتراض :
ایک لکڑی کی کشتی اتنے لمبے عرصے تک ایک پہاڑ کی چوٹی پر کیسے باقی رہی ؟
 جواب :۔ وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿سورہ قمر: آیت ١٥﴾
اور ہم نے اسے اہل دنیا کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنایا ہے، تو ہے کوئی نڈیحت حاصل کرنے والا؟
حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے اس پورے پہاڑی سلسلے میں صرف اس پہاڑ کی چوٹی پر برف ہے جہاں یہ کشتی ہے برف کی وجہ سے یہ کشتی محفوظ رہی ۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد!
ترتیب وپیشکش:
محمد انس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں