قصہ حضرت شیث علیہ السلام کا

شیث : ( عبرانی : شیث ) سیت Seth جس کے معنیٰ ہیں “عبداللہ ” یا “اللہ کی بخشش”۔ ( دیکھیے تاج العروس)

حضرت آدم علیہ السلام کے تیسرے بیٹے جو قتل ِہابیل کے پانچ سال بعد پیدا ہوئے ۔ والد بزرگوار کی عمراس وقت ایک سو بیس سال تھی ۔ چونکہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل قتل ہوگیاتھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا نعم البدل عطا فرمایا اورا سی مناسبت سے ان کا نام “شیث ” یعنی اللہ کا عطیہ رکھاگیا۔(الکامل 1: 28 تا 29 )

ابن الاثیر کی تصریح کے مطابق وہ اللہ کے نبی تھے جن پر پچاس صحیفے نازل فرمائے گئے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام فوت ہونے لگے تو انہوں نے حضرت شیث کو اپنا وارث اوروصی مقررکیا۔ حضرت شیث نے دن اور رات کے اوقات سکھائے ۔آنے والے سیلاب ( طوفان نوح ؑ ) کی خبردی اور انہیں تاکید کی کہ وہ دن کی ہر ساعت میں عزلت نشین ہو کر خدا کی عبادت کیاکریں ۔

یہ شیث ہی ہیں جن سےا نسل انسانی چلی کیونکہ ہابیل نےاپنا کوئی وارث نہیں چھوڑا تھا اور قابیل کے ورثاء سیلابِ عظیم ( طوفان نوح ؑ ) میں غرق ہوگئے تھے ۔کہتے ہیں کہ وہ مکہ میں رہتے تھے اور تا حیات حج کی رسوم ادا کرتے رہے ( الکامل 1: 31) انہوں نےا ن صحائف کو جوحضرت آدم علیہ السلام اورا ن پر نازل ہوئے تھے ( اور تعداد میں 50تھے ) اکھٹا کیا اور اپنے طرز عمل کے مطابق منضبط کیا۔انہوں نے خانہ کعبہ کو پتھر اور چکنی مٹی سے بنایا۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے بیٹے انوش ( Enoch ) ان کے جانشین ہوئے ۔ شیث ، کوہِ ابوقبیس کے غار میں اپنے والدین کے پاس دفن ہوئے ۔انہوں نے 912 سال کی عمر پائی تھی۔ ابن اسحق کے قول کے مطابق ان کی شادی ان کی بہن حزورہ سے ہوئی تھی ۔

الطبری “اپنی تاریخ میں انہیں شث اور شاث لکھتا ہے (152:1) اور بیان کرتا ہے کہ شیث اس نام کی سریانی شکل ہے۔یہ نام بدل کر عطیہ ( خداوندی ) کا ہم معنی ہے کیونکہ وہ ہابیل کی جگہ عطا ہوئے تھے ۔ ( بائبل 4سفرتکوین :26)

یہ تمام معلومات دائرۃ المعارف الاسلامیہ، اردو سے ماخوذ ہیں۔وکیپیڈیا سے مزید جو تفصیلات حاصل ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

(1) یہودیت اور عیسائیت کی طرح اسلام بھی انسان کا شجرہ نامہ شیث سے پہلے سے شروع کرتے ہیں کیونکہ جب ہابیل کو قابیل نے قتل کیا تو ہابیل سے کوئی وارث نہیں تھاجبکہ قابیل کے ورثاء جو نہایت درجہ گمراہ تھے طوفان نوح میں تباہ کردیئے گئے تھے۔شیث سے بہت سے ہنر منسوب ہیں۔ ابن عربی نے اپنی مشہور تصنیف فصوص الحكم میں اسرار نبویہ بحوالہ شیث کے عنوان سے ایک باب باندھاہے۔

(2) فلاویس یو سیفس ایک رومی یہودی جو ایک دانشور، مؤرخ اور سیرت نگار ہے،اس نے تحریر کیاہے کہ شیث کے اخلاف نے علمی تخلیقات اور ہنر سکھائے جیساکہ علم فلکیات وغیرہ۔یہ تمام علوم و ہنر اولاد شیث کے ذریعے قائم کیے گئے تھے ان علوم و ہنر کی بنیاد آدم کی ان پیشنگوئی کی بنیاد پر تھی کہ یہ دنیا ایک بار آگ اور ایک بارسیلاب عظیم کی وجہ سے تباہ کردی جائے گی۔شیث کی اولاد نے دو ستون تعمیر کیے : ایک کو اینٹوں اور دوسرے کو پتھروں کی مدد سے تعمیرکیاگیاتھا تاکہ ایجادات اور دریافتوں کوان ستونوں پر تحریر کرکے محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یاد باقی رہے۔ یہ ستون انسانوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اینٹوں اور پتھروں سے تعمیرات کی گئیں اور مختلف علوم و ہنر کی بھی اختراع ہوئی۔ فلا ویس یو سیفس نے تحریر کیاہے کہ آج بھی پتھروں کا ستون مصر (سریاد:land of Siriadd)کی سرزمین پر موجود ہے۔ ولیم وہسٹن جو سترھویں اور اٹھارویں صدی میں گزرے ہیں انہوں قدیم آثار یہود کا ترجمہ کرتے ہوئے حاشیہ میں تحریر کیاہے کہ یقینی طور پر فلا ویس یو سیفس نے غلطی سے شیث کو مصر کے ایک بادشاہ Sesostrissسے گڈ مڈ کردیاہے۔ وپ مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں سیلاب عظیم کے بعد کوئی بھی تعمیر بشمول ستون وغیرہ پانی سے بچ سکے کیونکہ گاد اور پانی نے ہر چیز کو دفن کردیاتھا۔

(3) کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ شیث کا مزار اقدس لبنان کے ایک گاؤں بنام شیث نبی میں واقع ہےجہاں بعد میں ایک مسجد ان کے نام پر قائم کی گئی تھی۔تیرھویں صدی عیسوی اور بعد میں آنے والے عرب جغرافیہ دانوں کی روایات کے مطابق شیث نبی کا مزارفلسطین کے ایک شہر رملہ کے شمال مشرق میں واقع ایک گاؤں بشیت میں تھا۔بلاشبہ، ادارہءاکتشاف فلسطین کے مطابق لفظ بشیت دو الفاظ “بیت” اور “شیث” کا مجموعہ ہے جس کامطلب ہے کہ خانہءشیث۔1948میں اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کےوقت یہ گاؤں غیرآباد ہوگیاتھا۔لیکن آج بھی تین کونوں والا مینار شیث کے مزار پر قائم و دائم ہے۔

(4) الشیثیون یا الشیثیہ فرقہ نام نہاد طور پر شیث کو معبود سمجھتاہے کیونکہ انکی روایات میں شیث کو ایک مافوق افطرت اوتارکے طور پر دکھایاگیاہے۔

ترتیب وپیشکش:

محمدانس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں