تحریر :اسماء فاروق
مدینہ منورہ سے چارسو کلو میٹرشمال مغرب میں ایک خاموش، ویران اور سنسان علاقہ ہے ۔
روایت ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر جب آپﷺ یہاں سے گزرے تو مقامی لوگوں نے آپ ﷺ کو وہاں کے کنویں کا پانی پیش کیا ، آپ ﷺ نے لوگوں کو پانی پینے سے منع فرمایا اوروہاں سے جلدی جانے کا حکم دیا۔
یہ علاقہ “مدین صالح ” کہلاتا ہے ۔وہ وہ ویرانہ ہے جہاں قوم ثمود پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ۔قوم ثمود نے حضرت صالح ؑ کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی ۔
قدیم تہذیب : سعودی سر زمین پر موجود یہ واحد آثارقدیمہ ہے جسے world Hevitage propaties کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں دنیا کے کتنے سائنسدان ،دانشور ،محقیقین اور ماہرین سخت سعودی قوانین کے باعث پہنچنے کے قابل ہوئے ۔کیونکہ راستے ہی میں بیان کردیا جاتا ہے کہ فلم بندی اورتصویر کشی منع ہے اورسورج غروب ہونے سے پہلےعلاقے سے باہر نکل جائیں ۔
٭پانچ ہزار سال پرانی اورقدیم تہذیب ہے جوآج تک محفوظ ہے ۔
٭قوم ثمود کے لوگ قدوقامت میں انتہائی لمبے چوڑے تھے ۔
٭ ان میں نو(9) گروہ تھے جن میں لوٹ مار اور بت پرستی عام تھی
سورہ اعراف میں ہے : وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٧٤﴾
ترجمہ :اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔
اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ میں قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بات ذہن میں رکھوانہیں قوم عاد کی ہلاکت کے بعد جانشین بنایا اور اس علاقے میں آباد کیا اور اتناطاقتور بنایا کہ پہاڑوں کوتراش کر اپنی رہائش کے لیے محل تعمیر کرتے ہیں ۔تو اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو اور زمین میں فساد نہ کرو۔
قوم ثمود کا کردار :۔ بد کردار تھے نکاح اور زنا کا فرق نہ تھا۔شراب عام تھی ۔سود اور تجارت عام تھا یہ اپنے گناہوں میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ اللہ نے ان پرعذاب نازل فرمایا اور ہلاک کردیا۔
قوم ثمود کاذکر قرآن شریف کی نو (9) سورتوں میں آیا ہے۔
اس قوم کا زمانہ حضرت ابراہیم ؑ سے بہت پہلے کا ہے ۔تب تک یہ ہلاک سوچتے تھے۔یہ بت پرست قوم تھی ۔اپنے پیغمبر حضرت صالح کا مذاق اڑاتے۔اور کہتے ہم سے زیادہ طاقتوراور مضبوط ہیں ہمارے عالیشان گھر ہیں اور تم ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں۔حضرت صالح ؑ انھیں غروروتکبرسے روکتے کہ ایک دن تم فتا ہوجاؤ گے نہ تمہارا غرور رہے گا نہ محلات جس پر تم ناز کرتے ہو مگر وہ نہ مانے اور حضرت صالح ؑ سے معجزہ کا مطابہ کرڈالا کہ پہاڑسے اونٹنی نکال کر دکھاؤ ۔
سورۃ اعراف میں یہ اس واقعہ کا بیان ہے : وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭهٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73
ترجمہ :اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ صالح نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل آ چکی ہے یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے نشانی ہے سو تم اسے اللہ کی زمین میں چھوڑے رکھو کھاتی پھرا کرے۔ اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ 77
سو انہوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کا حکم ماننے سے سر کشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح! اگر تم پیغمبروں میں سے ہو تو جس چیز کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے آؤ۔
سورۃ الشعراء میں مزید بیان ہے :
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥
صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ اونٹنی ہے پانی پینے کے لیے ایک دن اس کی باری ہے اور ایک مقررہ دن میں پینے کی تمہاری باری ہے۔
سورہ ہود میں عذاب کا ذکر ہے : فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ ۭذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ 65
ترجمہ :سو انہوں نے اس کو مار ڈالا اس پر صالح نے کہا کہ تم تین دن اپنے گھروں میں بسر کرلو یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا ہونے والا نہیں ہے۔
فرمایا کہ تین دن تک مزے لوٹ لو پھر عذاب کا آنا مقررہے ۔
اسی طرح سورہ اعراف میں عذاب کا بیان ہے :
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ 78
ترجمہ :سو ان کو پکڑ لیا زلزلہ نے۔ سو وہ اوندھے منہ ہو کر اپنے گھروں میں پڑے رہ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس چیخ سے ان کے گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں ۔ایسا محسوس ہوتا تھا وہ کبھی یہاں آباد نہ تھے ۔قوم ثمود نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور فنا ہوگئی ۔
ماہرین کے مطابق :۔ قوم ثمود بڑے بڑے مضبوط پتھروں کوکھود کر بڑے محل نما اور خوبصورت گھر بنایا کرتے تھے بڑے بڑے کمرے ہوتے تھے جن کی دیواروں میں چیزے رکھنے کے لیے شیلف بنائے جاتے تھے گھروں کی دیواروں پر خوبصورت نقش ونگار اور تصاویر بناتے تھے ۔کھدائی کےبعد کچھ محفوظ کی ہوئی قبریں ملی ہیں۔ جن کی دیواروں پر نقش ونگار اور اشکال کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں ۔
ان کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزوں پر مختلف ڈیزائن اشکال اور مختلف زبانوں( اسیریا، مصری ،یونانی ،اور کئی قسم کی قدیم زبانوں کی موجودگی کا پتہ لگا ہے ۔