قرآن کریم اور جدید سائنسی حقائق

(پہلی قسط)

محمد انس عبدالرحیم

قرآن کریم کا موضوع بنیادی طور پر ’’انسان‘‘ ہے۔ “سائنس” نہیں، لیکن اکیسویں صدی کا امتیاز کہیے کہ انسان سائنس اور جدید ریسرچ کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگ گیا ہے اس لیے اسے قرآن کا اعجاز کہہ سکتے ہیں کہ اس نےجدید دور کابھی لحاظ رکھا ہے اورکثرت سے سائنسی حقائق بیان کر دیے۔ 

یہ ناچیز قرآن کریم کے اندر موجود ان قیمتی موتیوں میں سے چند ایک کو تلاش کرکے آپ کے سامنے ترتیب سے پیش کر رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

تخلیقِ کائنات:

اللہ رب العزت نے کائنات کی تخلیق کیسے کی ہے؟ اس کا جواب سورہ اعراف آیت نمبر 54 میں دیاگیا ہے۔ذیل میں آیت کے مفہوم کو #سلف #صالحین کی تشریحات کے ساتھ ملاکربیان کیا جارہا ہے: 

(1) اللہ جل شانہ کے علم میں پہلے سے ہر چیز ہے کہ کون سی چیز کب پیداکرنی ہے اور کس صورت اور شکل میں پیدا کرنی ہے۔

(2) اللہ تعالی اپنے علم میں موجود ایک چیز کو جب پیدا فرماتے ہیں تو اسے کسی مادے کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ اسے بغیر مادہ کے عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔وہ کن کہتے ہیں اور لمحہ بھر میں وہ چیز سامنے موجود ہوتی ہے۔بغیر مادے کے کسی مادی چیزکو پیدا کردینے کا نام ہی”ابداع” ہے۔( اشرف التفاسیر: ج 2 ص171) ابداع کی مثال خود مادہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے کن سے اسے پیدا فرمایا ہے۔

(3) ابداع کے مقابلے میں “خلق” ہے۔جس کا مطلب ہے:مادے کو مختلف صورتیں پہنانا،جیسے:

الف: قرآن کریم نے کہا ہے کہ آسمان زمین سب ایک مادے کی وحدت کی شکل میں تھے۔اللہ تعالی نے اس مادے سے آسمان زمین سب کی تخلیق فرمائی۔{أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا} [الأنبياء: 30]

ب: جنات کو آگ سے تخلیق فرمایا۔

ج: سیدناآدم علیہ السلام کو عناصر اربعہ سے تخلیق فرمایا۔

د: ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق ، بیج سے نباتات کی تخلیق،قیامت میں مخلوقات کی دوبارہ تخلیق؛ ان سب پر تخلیق کا اطلاق ہوگا۔

(4) انسان بھی مادے کو مختلف شکلیں پہناسکتا ہے۔دنیا کی تمام ایجادات اس کی زندہ مثالیں ہیں،لیکن اللہ کی تخلیق اور انسانوں کی ایجادات میں پانچ بڑے فرق ہیں: ایک یہ کہ انسان مادے کا موجد نہیں ہے۔مادے کا موجدصرف اللہ تعالی ہے۔دوسرا ،یہ کہ اللہ تعالی وقت ،مشنری اور آلات کے بغیر اشیاکی تخلیق فرمادیتے ہیں،جبکہ انسان کسی بھی چیز کی ایجاد میں وقت، اسباب وآلات کا محتاج ہے۔تیسرا، یہ کہ اللہ تعالی کی تخلیق خود اس کے ارادے اور اس کے چاہنے پر موقوف ہے جبکہ انسانی ایجاد اللہ کی مشیت اور اللہ کے ارادے پر موقوف ہے۔انسان کوئی چیزایجاد کرنا چاہے تو جب تک اللہ کا ارادہ شامل حال نہ ہو ، اس کی تخلیق نہیں ہوسکتی،بلکہ انسان کی تخلیق درحقیقت اللہ ہی کی تخلیق ہے۔واللہ خلقکم وماتعملون ۔چوتھا یہ کہ اللہ کی تخلیق میں کوئی نقص نہیں رہتا،جبکہ انسانی ایجادات میں کئی نقائص نکل آتے ہیں۔ پانچواں ، یہ کہ اللہ تعالی کی تخلیق کے اندر جو خو ب صورتی ہے وہ انسانی ایجاد میں ممکن نہیں۔فتبارک اللہ احسن الخالقین اسی کہا گیا ہے۔

(5) اللہ جل شانہ نے آسمان وزمین کو چاہتے تو ایک لمحہ میں پیدا فرمادیتے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے: وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر،انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون۔لیکن اس کے باوجود اس نے آسمان زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ہے۔سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ اس کامقصد انسانوں کو تعلیم دینا ہے کہ انسان ٹھیراؤ،پختگی اور آہستگی کو اپنا ئیں ، جلد بازی اور عجلت پسندی سے بچیں کہ یہ شیطانی کام ہے۔

(6) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، امام مجاہد اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھ دن سے مراد زمین کے نہیں بلکہ عالم آخرت کے چھ دن مراد ہیں۔

(7) آخرت کا ایک دن کتنا بڑا ہے؟ اس کا صحیح علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے۔تاہم سورہ سجدہ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں کا ایک دن ہمارے ہاں کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔اس تشریح کو لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ آسمان زمین کی تخلیق چھ ہزار سال میں ہوئی۔سورہ معارج میں فرمایا گیا ہے کہ آخرت کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔اس تشریح کو لیاجائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آسمان زمین کی تخلیق میں تین لاکھ سال لگے۔

(8) تخلیق کا طریقہ یہ رہا کہ اللہ تعالی نے پہلے زمین کا مادہ بنایا، پھر آسمانوں کا۔یہ عمل دو دنوں میں انجام پایا۔اس کے بعد زمین کو بچھایا اور اس کے اندر درخت،نباتات،پہاڑ، سمندروں کا نظام وضع کیا۔یہ عمل بھی دو دنوں میں انجام پایا۔اس کے بعد سات آسمان بنادیے۔یہ عمل بھی دو دنوں میں انجام پایا۔اس طرح چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق عمل میں آئی۔(سورہ حم سجدہ)

ایک رائے:

چھ دنوں سے مراد تخلیق کے چھ مراحل بھی ہوسکتا ہے۔

(9) روایات میں آتا ہے کہ زمین اور آسمان کے مادے کی تخلیق اتوار اور پیر کے دن ہوئی۔زمین کے اندر درختوں، پہاڑوں اور سمندروں کا نظام منگل بدھ کو بچھایا گیااور آسمانوں کی تخلیق جمعرات جمعہ کو ہوئی۔ہفتے کے دن کوئی چیز نہیں بنائی گئی۔ظاہر ہے کہ اس وقت ہماری اس دنیاکے دن نہیں ہوتے ہوں گے؛کیونکہ دنوں کی یہ تقسیم تو آسمان زمین کی تخلیق کے بعد کسی زمانے میں طے کی گئی ہے،اس لیےمطلب یہ ہےکہ عالم آخرت کے چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق ہوئی کہ وہاں بھی ہفتے کے سات ہی دن ہیں،جس کا نظام وہیں جاکر معلوم ہوگا کہ وہاں کس طرح دن تبدیل ہوتے ہیں ؟

(10) قرآن کریم کی آیات اور ان کی تشریحات میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں کوئی آیت جدید سائنسی تحقیقات کے مخالف نظر نہیں آتی۔یہ قرآن کریم کی حقانیت اور اسلام کے دین برحق ہونے کی زندہ مثال ہے۔سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ چھوڑدیں اور اسلام کی سچائی کو دل سے قبول کرلیں۔

انسان جب بیماری ، تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے یا جان کنی کا عالم ہوتا ہے تو اس وقت اللہ تعالی کی ذات ہی اس کاواحد سہارا ہوتی ہے، اس لیے ابھی سے اللہ تعالی کی قدر کرلو!اسے پہچان لو!اور اسے راضی کرکے اگلے جہاں کو سنوارلو! 

قرآن کہتا ہے کہ کائنات ِرنگ وبو کے خالق اللہ تعالی ہیں،نظام ہستی چلانے والے اللہ تعالی ہیں تو عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے، اطاعت بھی اسی کی ہونی چاہیے اورحکم بھی اسی کا چلنا چاہیے!! !انسانوں سے یہی مطلوب ہے۔جس کو یہ بات سمجھ آگئی اس نے اس کائنات کا مقصد سمجھ لیا!

ترتیب وپیشکش: 

محمدانس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں