قرآن کریم اور جدید سائنسی انکشافات

(قسط نمبر6)

کشتی نوح: 

سیلاب عظیم کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پہ آکر ٹھیرگئی تھی ۔1977 میں کچھ مہم جوؤں نےاس کشتی کو دریافت کیا۔ یہ پہاڑی ترکی میں واقع ہے۔ جب کشتی دریافت ہوئی تو اخبارات میں اس کی تصاویرشائع ہوئیں۔ یہودیوں،عیسائیوں اور ملحدین کےدرمیان ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ ۔ملحدین ، دہریے اور روشن خیالوں نے اس پر چار بڑے اعتراض اٹھائے، یہود ونصاری اپنی کتابوں کی روشنی میں اس کا جواب نہ دے سکے۔ مگر قربان جائیے اسلام پر!!! کہ قرآن مجید میں ان کے تمام اعتراضات کا جواب پہلے سے موجود تھا۔

پہلا اعتراض : 

بغیر کسی ٹیکنالوجی کے چھ ہزار سال قبل ایسی عظیم الشان کشتی بنانا کیسے ممکن ہوا جو اتنا وزن اٹھا کر لمبے عرصے تک سمندر میں سفر کرتی رہی ؟

جواب: وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿سورہ قمر، آیت: ١٣﴾ اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر سوار کر لیا۔ 

تحقیق کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلوں اور تختوں کے آثار ملے ہیں۔کیلوں اور تختوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا۔ اللہ جل شانہ نے نوح علیہ السلام کو اس کا علم عطا فرمادیا تھا۔

دوسرا اعتراض : 

اس زمانے میں اتنی بڑی کشتی کیسے بنائی جاسکتی تھی جس میں دنیا بھر کے جانوروں کے جوڑے سوار ہوئے ؟

جواب :حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿ہود:آیت نمبر٤٠﴾

ترجمہ: یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک ماده) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان ﻻنے والے بہت ہی کم تھے۔

یعنی یہ کشتی کوئی عام کشتی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی کشتی تھی۔ یہ کشتی تین منزلہ ہے اور بہت لمبی چوڑی ہے۔ اس میں پانچ سو بائیس ریل کے ڈبے سوار کیے جاسکتے ہیں۔ پچیس ہزار جانوروں کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے اتنے جانوروں کا سماجانا بالکل درست ہے۔

تیسرا اعتراض : 

اتنی بڑی کشتی اتنے عظیم طوفان میں بغیر لنگر کے کیسے تیر سکتی ہے ؟ 

جواب : وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿سورہ ہود، آیت:٤١﴾ 

نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے۔

حیرت انگیز طور پر جس پہاڑ پریہ کشتی ٹھیری ہے اس کی نیچے وادی میں چٹانوں کے نیچے بڑے بڑے لنگر دریافت ہوئے ہیں وہ اسی کشتی کے لنگر ہیں۔

چوتھا اعتراض :

ایک لکڑی کی کشتی اتنے لمبے عرصے تک ایک پہاڑ کی چوٹی پر کیسے باقی رہی ؟

جواب :۔ وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿سورہ قمر: آیت ١٥﴾ اور ہم نے اسے اہل دنیا کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنایا ہے، تو ہے کوئی نڈیحت حاصل کرنے والا؟

حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہےکہ اس پورے پہاڑی سلسلے میں صرف اس پہاڑ کی چوٹی پر برف ہے جہاں یہ کشتی ہے۔ برف ہی کی وجہ سے یہ کشتی محفوظ رہی ہے۔

ترتیب وپیشکش: مفتی انس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں