قرآن کی تعریف

 کلام اللہ المعجز المنزل  علی خاتم الانبیاء والمرسلین  بواسطۃ الامین  جبرئیل  علیہ السلام  المکتوب  فی المصاحف المنقول  الینا بالتواتر المتعبد بتلاوتہ  المبدوء بسورۃ الفاتحۃا لمختم  بسورہ الناس

 قرآن  اللہ کا کلام  ہے جو معجزہ ہے  خاتم الانبیاء  الرسل  حضرت محمد ﷺ پر جبرئیل امین کے  واسطے نازل  ہوا ہے مصاحف میں اس کے حروف  لکھے ہوئے ہیں  ہم تک  حد تواتر سے  نقل چلا آیا  ہے اس کی  تلاوت  عبادت  ہے اور باعث  ثواب  ہے اس کی  ابتداء سورۃ فاتحہ  سےا ور اختتام  سورہ  ناس پر ہوتاہے.

قرآن  کی یہ تعریف علماء اور اصولیین کے درمیان متفقہ تعریف  ہے ۔

 طالب علوم  قرآن کی کیا شان  ہونی چاہیے ؟

طالب علوم  قرآن کی یہ شان  ہونی چاہیے  کہ وہ خود کو قرآنی آداب  سے وابستہ  اور قرآنی  اخلاق سے آراستہ  کرے علم سے مقصد اللہ کی رضا  اور دارآخرت  ہو،نہ کہ دنیا اورا س کا مال  اسباب ،ا سے قرآن  پر عامل ہونا چاہیے تاکہ قرآن  قیامت   کےدن اس کے خلاف نہیں بلکہ  اس کے  حق میں حجت  اور سفارشی  بن سکے۔ا رشاد نبوی  ﷺ ہے :”القرآن حجۃ لک  او علیک “۔  

” قرآ ن یا تو آپ کے  حق میں سفارشی  ہے یا آپ  کے خلاف  حجت ہے “۔ (قرطبی )

شیخ الاسلام  حافظ ابن تیمیہ  ؒفرماتے ہیں  

 “جو قرآن  کی تلاوت  نہ کرے   اس نے قرآن  کو نظر انداز کیا جو قرآن    کی تلاوت  تو کرے   لیکن اس کے  معانی  پرغوروتدبر نہ کرے اس نے بھی قرآن   کو نظرانداز کیا۔اور جو قرآن  کی تلاوت  بھی کرے  اس کے معانی میں غور وتدبر بھی کرے  لیکن اس پر عمل نہ کیا توا س نے  بھی قرآن کو نظر انداز کیا۔”

 ابن تیمیہ ؒ  اس آیت کی طرف اشارہ کررہے ہیں  کہ: وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ ۔”

 اورا س د ن  رسول کہیں  گے اے میرے پروردگا ر میری قوم  نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر رکھاتھا۔ ( فرقان 30 قرطبی  )

اپنا تبصرہ بھیجیں