قربانی کے ساتویں حصے میں مختلف افراد کا مشترکہ نیت کرنا

فتویٰ نمبر:15

مفتی اعظم پاکستان  حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب ؒ  کا فتویٰ

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین  ومفتیان  شرع مبین کہ لوگ ایک سال کے لیے مزدور   رکھتے ہیں ،ا س کی اجرت  کے اندر ایک سال کا کھانا بھی داخل ہے کیا اس مزدور کو اپنی  قربانی  کے گوشت  سے کھانا کھلانا جائز ہوگا  یانہیں ؟ یعنی اس کی اجرت  میں جو کھانا دیاجاتا  ہے  اس کھانا کو اپنی قربانی کے گوشت سے  کھلاسکتے ہیں یا  نہ ؟

2:دیگر  یہ ہے کہ محلہ میں بیس یاتیس  گھر والوں پر ایک ایک سردار  ہوتے ہیں جس کو ہمارے اصطلاح  میں شماز کہتے ہیں ، اب قربانی  کرنے والے لوگ اپنی قربانی  کے گوشت کو تین حصہ کرتے ہیں ایک حصہ خود رکھتےہیں اور دو حصہ ان شمازیوں کو دیتے ہیں اور اپنی قربانی کو  چھیلنا اور کوٹنا وغیرہ یعنی قصائی  کا کام شمازیوں سے لیتے ہیں اور اگر کوئی شخص کام کرنے کے لیے حاضر نہ ہو تو ان کو سردار  صاحب بہت برا  بھلا کہتے ہیں  کبھی کبھی ان کو گوشت  کے حصہ سے محروم کیاجاتا ہے  اور جولوگ کام کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں وہ بھی محض  گوشت  کے خیال سے آتے ہیں  کیونکہ ان کو گوشت  نہ ملے  تو ہر گز کام کرنے کے لیے نہیں آئیں گے تو خلاصہ  یہ ہے کہ شمازیوں سےقصائی کا کام لے کر ان کو قربانی کے گوشت  دینا  جائز ہوگا یا نہ ؟

3۔ یہ ہے کہ چھ آدمی  مل  کر ایک  بیل قربانی  کے لیے خریدتے  ہیں، اب چھ آدمی چھ حصہ  کو از طرف  خود ساتواں حصہ کو  چھ آدمی  مل کر حضور ﷺ کے لیے قربانی  دیتے ہیں اب یہ ساتوں  حصہ قربانی  ہوگی یا نہ ہونے کی صورت  پر باقی  چھ  حصہ قربانی میں فتور آئے گا یا نہ ؟

بینوا توجروا عنداللہ الجلیل ۔

جواب  1: بہتر  یہ ہے  کہ قربانی  کے ایام  میں اس کے کھانے میں کچھ زیادتی  کردی جائے تا کہ قربانی  کا گوشت  معاوضہ  ملازمت سے زائد ہوجائے ۔

2۔ظاہر ہےکہ قربانی  کا گوشت  کسی خدمت  کے معاوضہ میں دینا حرام ہے اور جو کسی نے دیاہے،ا س کی قیمت لگا کر صدقہ کرنا واجب ہے ۔

3: ساتواں حصہ میں کئی آدمیوں  کی شرکت  کی وجہ سے  یہ قربانی ناجائز ہوگئی ۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ

دارالعلوم  کراچی

21/صفر 1378ھ

3: چھ آدمی مشترک طور  پر گائے خریدیں  اور ہر ایک شخص نے ایک ایک  حصہ مکمل طور پر رکھا اور باقی ایک حصہ میں وہی چھ آدمی  مل کر اپنے  بجائے حضور ﷺ کی طرف سےقربانی  کرنا چاہیں  تو اس صورت  کے بارے میں کوئی صریح  جزئیہ  تو کتب فقہ میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکا، البتہ قواعد  کا مقتضاء  یہ ہے کہ ان کی اصل قربانی  درست ہوجائے گی ۔لیکن ایک حصہ میں آنحضرتﷺ کی طرف سےقربانی کرنے کی جو نیت  ہےوہ درست  نہیں ہوگی ۔ یعنی ہر ایک کی طرف الخ

اس کی دلیل  یہ ہے کہ اس مسئلے  میں علماء کا اختلاف ہے کہ جو شخص کسی جانور میں ایک حصہ اپنی واجب قربانیکے طور پر کررہاہو، وہ اسی جانور میں دوسرا حصہ نفلی قربانی  یا کسی اور جہت  کےلیے  لے سکتا ہے یا نہیں ؟

بعض حضرات مثلا ً حضرت مولانا مفتی رشیدا حمد صاحب مد ظلہم  کی رائے یہ ہے کہ وہ دوسرا حصہ کسی اور جہت کے لیےنہیں  لے سکتا،ا ور اگر  وہ ایسی  نیت کرے گا تو اس کی نیت  کالعدم  ہوگی  اور دونوں حصوں سے واجب  ہی ادا ہوگا  مثلا کوئی شخص  ایک پوری  گائے کی قربانی کرے اور اس میں ایک حصہ  اپنی واجب قربانی کا رکھے  اور  باقی چھ  حصے مختلف  لوگوں کے ایصال ثواب  کے لیے رکھے  تو  اس قول کے مطابق باقی چھ حصوں  میں ایصال ثواب کی نیت  معتبر   نہ ہوگی، بلکہ  پوری گائے سے واجب قربانی ہی ادا ہوگی  ۔

لیکن دوسرے علماء کا  کہنا ہے کہ واجب قربانی  کے ساتھ ایک شخص ایک ہی جانور  میں متعدد حصے متعدد جہات کےلیے رکھ  سکتا ہے  ۔ ان دونوں اقوال  کے مطابق صورت مسئولہ میں واجب قربانی ادا ہوگی  ، اور ایک حصہ میں ایصال ثواب  کی نیت معتبر  نہ ہوگی ۔

پہلے قول کے  مطابق تو ظاہر ہے کہ جب ایک شخص ایک جانور  میں متعدد جہات کی نیت نہیں کرسکتاتو صورت مسئولہ میں آنحضرت ﷺ کی طرف  سے قربانی کرنے کی جو نیت   کی گئی ہے  وہ معتبر نہ ہوئی اور پورے  جانور سے واجب قربانی ہی ادا ہوئی ۔

البتہ دوسرےقول پر اشکال ہوسکتا ہے  کہ جب ایک شخص ایک ہی جانور میں متعد د جہات  کےلیے  حصہ لے سکتا ہے تو صورت مسئولہ  میں چھٹے مسئولہ میں چھٹے حصے کے اندر تمام افراد کی نیت  معتبر قرار  پائی  اور چونکہ ایک حصہ میں چھ افراد  شریک ہوئے جو خلاف مشروع  ہے لہذا یہ چھٹا حصہ لحم بن گیا اورجب ایک حصہ لحم بن گیا تو کسی بھی حصہ کی قربانی درست  نہ ہوئی ۔

لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قول کے مطابق  بھی مذکورہ چھ افراد کی اصل واجب قربانی ادا ہوجائے گی  اس کی دلیل دو مقدمہ پر موقوف ہے  :

1: پہلا مقدمہ  یہ ہے کہ جب  کوئی شخص کوئی قربانی  کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس کی امر کے بغیرکرتا ہے  تو درحقیقت  وہ قربانی ذبح کرنے

والے کی طرف سے ہوتی ہے ۔ا لبتہ اس  کا ثواب اس شخص کو پہنچتا ہے  جس کی طرف سے قربانی کرنے کی اس نے نیت  کی ۔

 ( ردا لمختار  5/213)

 وفی العرف الشذی للکشمیریؒ  ج : 3 ص :191

2: دوسرا مقدمہ  یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جانور  میں ساتویں  حصےکی کوئی کسر   ( مثلا نصف  السبع  یا ثلث السبع  یا سدس السبع )  تنہا لے تو وہ شرعاً قربانی نہیں ہوتی  بلکہ لحم بن جاتی ہے ۔البتہ  جس شخص نے کسی جانور  میں کوئی سبع  کامل لیاہو تو اس کے ساتھ  اگر وہ سبع  کی کسر  بھی لے لے  تو وہ  کسر بھی  اصل کے تابع  بن کر قربانی  شمار ہوتی ہے  اس کی وجہ سے  جانور  لحم نہیں  بنتا ، یہ بات سوال 2 کے  جواب میں مفصل گزرچکی  ہے ۔ تاہم  اطمینان  کے لیے مندرجہ ذیل  عبارتیں  دوبالرہ ملاحظہ  ہوں :

 ( بدائع الصنائع  للکاسانی ؒ  5/71)

(حاشیۃ الھدایۃ للامام اللکنوی  ؒ (4/445 )

( ومثلہ فی العنایۃ ( 8/71) ( والھندایۃ ( 8/71)

ان دومقدمات کی  روشنی میں جب زیر بحث صورت کو دیکھا جاتا ہے  تو اس کی حقیقت یہ سامنے آتی ہے  کہ مذکورہ  چھ آدمیوں نے ایک حصہ  میں حضور اکرم ﷺ کی طرف سے قربانی  کرنے کی جو نیت   کی ہے بحکم مقدمہ اولٰی  اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ قربانی انہیں کی طرف سے ہوگی  ،ا ور آنحضرت ﷺ کوایصال ثواب  ہوگااور جب قربانی  انہیں کی طرف  سے ہوئی تو اگر ان کا کوئی کامل حصہ اس  جانور میں نہ ہوتا  تو یہ حصہ لحم بن جاتا ہے  ، کیونکہ کسر کی قربانی  مستقلاً مشروع نہیں ، لیکن چونکہ  انہیں چھ آدمیوں کے اسی جانور  میں کامل حصے موجود ہیں ۔ا س لیے  چھٹے حصے  کی کسر دوسرے  مقدمے  کے مطابق  کامل حصے  کے تابع  ہوکر درست  ہوجائے گی ،ا س کی مثال  بالکل ایسی ہوگی  جیسے  یہ چھ آدمی  جانور  میں ایک ایک کامل حصہ لینے  کے بعد ساتویں حصہ کے بارے  میں یہ طے  کرتے کہ  یہ ہم سب  کی طرف مشترک ہوگا جس کا حاصل یہ ہوگا  کہ اس ساتویں حصہ کا ایک ایک سدس ہر شخص کا ہوگا ، ظاہر  ہے کہ اس صورت میں ساتویں حصہ کی کسر کی وجہ سے  بحکم مقدمہ  ثانیہ ان کی قربانی  باطل نہ ہوئی  ، بلکہ یہ کسر بھی اصل کے تابع ہوکر درست ہوجاتی  ہے ، بعینہ اسی طرح  مسئولہ میں  بھی یہ  اصل قربانی  درست  ہوجائے گی ، کیونکہ  آنحضرت ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کا مطلب  بحکم  مقدمہ اولیٰ  اپنی طرف سے  قربانی کرنا ہے  ، وقد مرجوازہ ۔

اب صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے لیے جو ایصال ثواب  کیاہے، آیا یہ ایصال  ثواب درست ہوگا یا نہیں ؟

اول تو ا س مسئلے  کا  تعلق آخرت  کے ثواب سے ہے  ، جس کےبارے میں نص کی غیر موجودگی میں کوئی یقینی  حکم لگانا مشکل ہے ، لیکن قواعد سے یہ ایصال ثواب  درست معلوم نہیں ہوتا،ا س لیے کہ ساتویں حصہ میں جو کسر  واقع ہوئی وہ قربت  تو ہے لیکن قربت  مستقلہ نہیں ۔بلکہ  واجب قربانی  کے تابع ہے لہذا اس قربت تابعہ  کا ایصال ثواب  ایساہے جیسے کوئی  شخص یہ کہے  کہ میں نے اپنی   فرض نمازمیں جو مستحبات  انجام دیے  ہیں صرف ان مستحباب کا ثواب  فلاں  کو پہنچاتا ہوں  اور ایسے  ایصال ثواب  کی کوئی نظیر  شریعت میں نظر سے نہیں   گزری ۔

بالخصوص یہاں قربت  تابعہ  بھی ایسی  ہے کہ  اگر مہدی  لہ خودا س کو انجام  دیتا تو کسی کی بھی قربانی درست  نہ ہوتی  ،ا س لیے  اس کا ایصال ثواب  اور زیادہ مخدوش ہے اس کے علاوہ  صرف ایک قربت  ضمنیہ کا ثواب آنحضرتﷺ کی خدمت  میں ہدیہ  کرنا ، جبکہ  قربت اصلیہ  اپنی طرف  سے ہو ذوقاً موہم  سوء ادب معلوم ہوتا ہے  لہذا اس سے  احتراز  کرنا چاہیے اور جب آنحضرت ﷺ کی طرف سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو مکمل حصہ کی قربانی  کرنی  چاہیے  ۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع  صاحب قدس سرہ  کا جو فتویٰ سوال کے ساتھ منسلک  کیاگیا  ہے وہ بظاہر   نظر مذکورہ تحریر  کے خلاف معلوم  ہوتا ہے لیکن اس فتویٰ میں کافی اجمال ہے اور اس میں جو یہ فرمایا گیاکہ

“ساتویں حصہ میں کئی آدمیوں کی شرکت کی وجہ سے یہ قربانی ناجائز ہوگی ۔”

اس کا ایک مطلب  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف ساتواں حصہ  میں ایصال ثواب کی نیت سے قربانی  باطل ہوگی  ، نہ کہ اصل قربانی  ،ا س صورت  میں اس فتویٰ   کا حاصل  بھی وہی ہوگا جو اوپر  ذکر کیاگیا ۔

دوسرے اگر اس فتویٰ کی مراد یہی ہو کہ پوری قربانی  باطل ہوگی ۔ تو یہ احتمال  بھی ہے کہ حضرت ؒ کے پیش نظر  وہ صورت  ہو جبکہ  ساتویں حصہ میں دوسرے کئی  آدمیوں کی شرکت  ہوگئی ہو،  نہ کہ ان آدمیوں  کی جن کے کامل  حصے اس جانور  میں موجود ہیں ۔ا ور پیچھے  عرض کیا جاچکاہے کہ اس صورت  میں پوری قربانی  کا باطل ہوجاتی ہے ۔ا ور اگر بالفرض فتویٰ  کی مرادصورت مسئولہ  میں  پوری قربانی  کا باطل ہوجاناہے  تو حضرت  ؒ نےا س مسئلے  کے دلائل سے تعرض  نہیں فرمایا،ا ور اگر  حضرت اقدس سرہ کی خدمت  میں وہ امور  پیش کئے جاتے ،  جن کا اوپر  ذکر کیاگیا تو شاید ان کی رائے  بھی قربانی  کے جواز کی  ہوتی ۔ا ن احتمالات  کی موجودگی  میں یہ محتمل فتویٰ مذکورہ  بالا دلائل  کو یکسر  انداز کرنے کے  لیے کافی  معلوم نہیں ہوتا۔

اسی فتوٰی کے  مختلف  پہلؤوں پر غور کرنے کی وجہ سے جواب میں تاخیر  ہوئی کیونکہ حضرت اقدس سرہ کا محتمل  فتوی بھی ہم جیسوں کی مفصل  تحقیق پرفوقیت رکھتا ہے ۔

لیکن بار بار اصول  وقواعد پر نظر  کرنے اور کتب  فقہ کی مراجعت کے بعد جورائے فیما بیننا وبین اللہ قائم ہوئی  ۔ اہل  علم کے سامنے اس کا اظہار  بھی ضروری ہوا،ا س بناء  پر یہ تحریر  لکھی گئی ، تاہم چونکہ یہ تحریر قواعد کی بنیاد پر لکھی گئی ہے  اور حضرت ؒ کے فتویٰ کا ظاہر اس کے خلاف  ہے اسلیے  یہعین  ممکن ہے کہ یہ ناچیز  کے سوء فہم  پر مبنی  ہو اس لیے  اس بارے میں دوسرےعلماء  اہل فتویٰ سے بھی  مراجعت کرلی جائے۔

ھذا مامنح  لی فی ھذا الباب ۔

واللہ اعلم

احقرمحمد تقی عثمانی 

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://goo.gl/Fm9j9z

اپنا تبصرہ بھیجیں