رشتہ داروں کے حقوق

سبق نمبر :1

حسن سلوک  کی اہمیت:

قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں  والدین کے  ساتھ حسن سلوک کے بعد قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے، اور  ان رشتوں کا  نبھانا ہی صلہ  رحمی  کہلاتا ہے، سورہ نساء میں ہے: {وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ} [النساء: 1] ترجمہ:”اور اللہ سے ڈرو جن کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے ) ڈرو”اور سورہ بنی اسرائیل میں   بھی اس کا حکم دیا گیا   “وآت ذا القربى حقه(بنی اسرائیل:26) اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔

فائدہ:

رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کے حقوق کی ادائیگی  کرنا صلہ رحمی کہلاتا ہے،آیت کریمہ میں لفظ ارحام جو آیا ہے وہ  رحم کی جمع ہے،اور رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں جس میں ولادت سے قبل بچہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے،چونکہ ذریعہ قرابت ،ایک دوسرے سے رشتہ بننے کا سبب یہی رحم بنتا ہے،اسی لیے اس رحم سے جو رشتہ   اور تعلقات پیدا ہوتے ہیں ان کی  نبھانے کو صلہ رحمی  اور ان  تعلقات  سے بے توجہی  برتنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کا قطع رحمی کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں کئی مقامات پر جہاں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کا ذکرہے اس کے ساتھ ہی  عام رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی  ذکر کیا گیا ہے۔

1۔۔۔سورہ بقرہ میں ہے:

 { وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى } [البقرة: 83]}

ترجمہ:”اور وہ (وقت  یاد کرو) جب  ہم نے بنی اسرائیل سے پکا  عہد لیا تھا کہ: تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کروگے،اور شتہ داروں کے ساتھ”

2۔۔۔ سورہ نساء میں ہے:

{وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى} [النساء: 36]

ترجمہ :” اور اللہ کی عبادت کرو،اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور  رشتہ داروں کے ساتھ”

3۔۔۔مومنین کی صفات میں  یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ  رشتوں کو نبھاتے ہیں ،سورہ الرعد میں  ہے:

{وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ } [الرعد: 21]

ترجمہ:”اور جن  رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں،اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں “

رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل:

                        مذکورہ  قرآنی آیا ت سے  صلہ رحمی کی اہمیت  کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،قرآن کریم  اور احادیث  نبویہ   کی بنیاد پر امام قرطبی رحمہ اللہ نے    صلہ رحمی   کے وجوب  پر  اور قطع رحمی کے حرام ہونے پرامت کا اجماع نقل کیا ہے ،صلہ رحمی کرنا ہر  قسم کے قریبی رشتہ داروں سے واجب ہے چاہے وہ محرم ہو   یا غیر محرم،جس میں  والدین ،بھائی بہن ،  چاچا ،ماموں ، پھوپھی  ،خالہ اور ان کی اولادیں  شامل ہیں ، البتہ   جس کا رشتہ جتنا قریبی ہو  اس حساب سے  صلہ رحمی کے مختلف درجات ہیں ،والدین  کا حق سب سے زیادہ ہے تو ان   سے حسن سلوک اور ان کی ادائیگی سب سے اہم ہے،دادا، بڑے بھائی،چاچا اور تایا وغیرہ کا درجہ   صلہ رحمی میں والد کی طرح ہے،بڑی بہن  اور خالہ کا درجہ  حسن سلوک اور خدمت میں والدہ کی طرح  ہے،رشتہ داروں کے ساتھ  صلہ رحمی کس  طرح کی جائے ،تو اس بارے میں   دو باتیں یاد  رکھنے کی ہیں :

(الف) پہلا درجہ تو ان کے ساتھ حسن معاشرت اور عمدہ سلوک ہے،جس میں  اچھی طرح  ملنے جلنے،ان کا حال احوال لیتے رہنا، مشکل وقتوں میں ان کی مدد کرنا،اس کے علاوہ   ان کی دعوت قبول کرنا اور بیماری کے وقت ان کی عیادت کرنا  ،سب ان  کے حقوق میں سے ہے، علماء نے لکھا ہے کہ ہر ہفتہ  ورنہ  ہر ماہ  کم ازکم  رشتہ داروں سے  آدمی کو ملاقات کر لینی چاہیے،اور جن رشتہ داروں سے ملاقات اس بنا پر مشکل ہو کہ وہ دوسرے شہر یا  ملک میں ہوں تو ان  سے فون ،یا خط  خطابت کے ذریعے  تعلق کو برقرار رکھا جائے،اسی طرح کبھی کبھی  تحفہ تحائف دے کر  بھی  رشتہ داروں سے  اپنے تعلق کو بڑھایا  جائے۔

  آج ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بڑی کوتاہی ہے ،عام رشتہ داروں سے ملنا جلنا نہیں رکھتے  ،اس کو دین کا حصہ نہیں سمجھا جاتا،ہر ایک اپنی دنیا میں مگن ہے،رشتہ داروں کی خیر خیریت لینا ،ان کی دلجوئی کے لیے کبھی کبھار ہی سہی ملنا  یہ بھی  ان کے حقوق اور دین کا حصہ ہے۔

الدر المختار (رد المحتار) (6 / 411):

(وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف وإحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور أقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث «إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها» وفي الحديث «صلة الرحم تزيد في العمر»

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 411):

(قوله وصلة الرحم واجبة) نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون. كل قريب محرما كان أو غيره اهـ والثاني ظاهر إطلاق المتن قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم، وفيهم أشد من بقية الأرحام وفي الأحاديث إشارة إلى ذلك كما بينه في تبيين المحارم (قوله ولو كانت بسلام إلخ) قال في تبيين المحارم: وإن كان غائبا يصلهم بالمكتوب إليهم، فإن قدر على المسير إليهم كان أفضل وإن كان له والدان لا يكفي المكتوب إن أرادا مجيئه وكذا إن احتاجا إلى خدمته، والأخ الكبير كالأب بعده وكذا الجد وإن علا والأخت الكبيرة والخالة كالأم في الصلة، وقيل العم مثل الأب وما عدل هؤلاء تكفي صلتهم بالمكتوب أو الهدية اهـ. وتمامه فيه.

ثم اعلم أنه ليس المراد بصلة الرحم أن تصلهم إذا وصلوك لأن هذا مكافأة بل أن تصلهم وإن قطعوك فقد روى البخاري وغيره «ليس الواصل بالمكافئ ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها» ” (قوله ويزورهم غبا) الغب بالكسر عاقبة الشيء وفي الزيارة أن تكون في كل أسبوع، ومن الحمى ما تأخذه يوما وتدع يوما قاموس لكن في شرح الشرعة هو أن تزور يوما وتدع يوما ولما كان فيه نوع عسر عدل إلى ما هو أسهل من الغب فقال بل يزور أقرباءه في كل جمعة أو شهر على ما ورد في بعض الروايات

(ب)اگر عام رشتہ دار  ضرورت مند ہوں تو اپنی  طاقت کے بقدر ان کی مالی   اعتبار سے مدد کرنا بھی ان کے حقوق میں سے ہے،رشتہ داروں میں اگر کوئی عورت یا ایسا بچہ ہو جس کے پاس گزارہ کا سامان نہ ہو،اسی طرح  کوئی اپاہج،نابینا یا ایسا بیمار ہو کہ اتنا مال بھی اس کے پاس نہ ہو جس سے وہ گزر بسر کر سکے تو رشتہ داروں میں سے  جو مالی اعتبار سے وسعت رکھتے ہوں  ان پر ان کا نفقہ لازم ہوگا،  نفقہ کے لازم ہونے میں  شریعت نے وراث  ہونے کا اعتبار کیا ہے،یعنی  جو ضرروت مند ہیں اس کے جو رشتہ دار جتنے حصے کے اس کے مرنے کے بعد وارث  بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں ،اسی حصہ میراث کے بقدر ان پر اس بچہ کا خرچہ لازم ہوگا، مثلاً:یتیم  بچے کی اگر صرف ماں  اور دادی ہوں  تو ماں پر ایک  تہائی خرچہ اور دادی پر دو تہائی، اگر ایک درجے  کے کئی رشتہ دار صاحب وسعت ہوں  تو ان سب پر   ان  مستحقین  رشتہ داروں کا  نفقہ تقسیم ہوگا، جیسے ،ایک معذور  لڑکے کے تین بھائی ہوں اور کوئی نہ ہو تو برابر کا خرچہ سب پر لازم ہوگا،یا درہے یہ ان رشتہ داروں کا ہم پر حق ہے ،اس لیے ان کی مدد کرنا ان پر احسان نہیں ہوگا۔(معارف القرآن :ج5،ص470)

الفتاوى الهندية (1 / 566):

ويجب ذلك على قدر الميراث ويجبر كذا في الهداية وتعتبر أهلية الإرث لا حقيقته كذا في النقاية.. لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الأرحام إذا كان غنيا أما الكبار الأصحاء فلا يقضي لهم بنفقتهم على غيرهم، وإن كانوا فقراء، وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الأرحام، وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة إلى النفقة

                       

اپنا تبصرہ بھیجیں